تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان
سینئر صحافی شبر اعظمی اس ملک کی مزاحمتی تحریک کا جیتا جاگتا کردار ہیں ۔ انھوں نے طالب علمی کے دور سے طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی، منہاج برنا کی قیادت میں صحافیوں کی تحریک کا حصہ بنے۔پولیس اور گمنام خفیہ ایجنسیوں نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، گھر کی تلاشی لی اور ناروا سلوک سے چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے سوال پیدا ہوگئے۔ شبر اعظمی غازی پور بھارت میں پیدا ہوئے ۔ وہ اپنے اسکول سے ہی سیاسی طور پر سرگرم رہے۔ شبر اعظمی نے اپنا بچپن اور نوجوانی پی آئی بی کالونی اور کورنگی میں گزاری ۔ انھوں نے کورنگی اور اس سے متصل لانڈھی کے طلبہ کو منظم کرکے لانڈھی، کورنگی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔
1963ء میں کراچی میں شدید بارش ہوئی۔ اس زمانے میں لاکھوں افراد ملیر ندی کے کنارے میں کچی آبادیوں میں رہ رہے تھے ۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے کورنگی کوارٹر تعمیرکیے تھے۔ شدید بارشوں کے نتیجے میں ملیر ندی میں سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ۔ کچی آبادیوں میں داخل ہونے والے کئی افراد اس ریلے کی زد میں آکر جانیں گنوا بیٹھے۔کچی آبادیاں ڈوب گئیں اور لوگ بے گھر ہوگئے۔ ان بے گھر افراد نے سرکاری کوارٹروں میں سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈی۔ حکومت نے انسانی ہمدردی کی بناء پر ان لوگوں کو یہ کوارٹر دینے کے بجائے کوارٹروں کو خالی کرانے کے لیے آپریشن شروع کیا۔شبر اعظمی نے بطور صدر ، لانڈھی کورنگی اسٹوڈنٹس فیڈریشن ،اس بے رحم آپریشن کے خلاف ایک زبردست تحریک کا آغازکیا اور بے گھر افراد کی حمایت میں تادم مرگ بھوک ہڑتال بھی شروع کر دی ۔ ڈاکٹر حسن جاوید نے اپنی کتاب ’’سورج پرکمند ‘‘ میں لکھا کہ اس دور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ایوب آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کررہی تھی۔ شبر اعظمی بتاتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک جلد ہی ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ شبر اعظمی نے این ایس ایف کو حیدرآباد، میرپور خاص، نواب شاہ اور سکھر میں منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
شبر اعظمی نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ، وہ معروف ادیب شوکت صدیقی کی زیر نگرانی شایع ہونے والے ہفت روزہ ’’ الفتح‘‘ میں کام کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار روزنامہ مساوات میں ملازمت اختیار کرلی ، یوں شبر اعظمی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے فعال کارکن بنے۔ انھوں نے منہاج برنا، حفیظ راغب، نثار عثمانی اور احفاظ الرحمن کی قیادت میں صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کے حالات کارکو بہتر بنانے اور آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ شبر کراچی یونین آف جرنلسٹس اور ایپنک کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
جنرل ضیاء الحق نے 1978ء میں حزب اختلاف کی آواز دبانے کے لیے مختلف اخبارات پر پابندیاں عائد کیں۔ ان پابندیوں سے پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار روزنامہ مساوات براہِ راست متاثر ہوا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور آل پاکستان نیوزپیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن نے مزاحمتی تحریک میں سیکڑوں صحافی، طلبہ، مزدور، کسانوں اور خواتین کے نمایندے جیلوں میں گئے۔ شبر اعظمی نے ان تحریکوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں پنجاب اور سندھ کی جیلوں میں نظربند کیا گیا۔ جب منہاج برنا نے سکھر جیل میں صحافیوں کے مطالبات کو منوانے کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تو پھر سندھ کی تمام جیلوں میں بھوک ہڑتال کی تحریک پھیل گئی۔ شبر اعظمی اس تحریک کے ہراول دستہ میں شامل تھے۔انھوں نے روزنامہ مساوات پر بندش کے بعد بے روزگاری کا دور ہمت سے گزارا ، پھر روزنامہ امن میں انھیں جگہ ملی۔ وہ ہائی بلڈ پریشرکی بناء پر فالج کے حملے کا شکار ہوئے اور چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے۔ شبر اعظمی کی اہلیہ بینک سے ریٹائر ہوئیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی شادی کے بعد لندن جا بسیں۔ شبر اعظمی اپنی اہلیہ کے ساتھ جہانگیر روڈ کے ایک مکان میں مقیم ہیں ۔ ان کی اہلیہ شبر اعظمی کی سارا دن خدمت کرتی ہیں۔گزشتہ ہفتے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ شبر اور ان کی اہلیہ نامعلوم افراد گھر میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ شبر اعظمی کی اہلیہ نے ان اہلکاروں کو بتایا کہ اس گھر میں وہ اپنے بیمار شوہر کے ساتھ مقیم ہیں جب کہ شوہر بستر سے اٹھ نہیں سکتے، مگر اہلکاروں نے ان کی ایک نہ سنی۔ ان افراد نے پورے گھر کی تلاشی لی۔ شبر اعظمی اور ان کی اہلیہ کی تصاویر اتاری، گھر کی مووی بنائی۔
شبر کے گھر میں سوائے کتابوں اور رسائل کے کچھ نہ تھا، یوں یہ اہلکار مایوسی کی حالت میں واپس چلے گئے۔ شبر اعظمی کی پرانی تربیت کام آئی۔ وہ ان اہلکاروں کے چھاپے سے قطعاً خوفزدہ نہ ہوئے، یوں ان کی طبیعت خراب ہونے کا خدشہ ختم ہوا۔ شبر اعظمی کے گھر پر چھاپہ مارنے اور ناروا سلوک کرنے کی خبر ملک بھر میں اور پھر دنیا بھر میں پھیل گئی۔ سب کو یہ تشویش تھی کہ شبر اعظمی اور ان کی اہلیہ خیریت سے ہیں۔ صحافی تنظیموں نے سرکاری اہلکاروں کی اس کارروائی پر سخت احتجاج کیا۔معاملہ وزیر اعلیٰ تک پہنچا جنہوں نے فوری کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کسی سنگین واقعے سے بری الذمہ ہونے کا پرانا طریقہ استعمال کیا۔ داخلہ امور کے مشیر نے اس واقعے کو اہلکاروں کی غلطی قرار دیا۔ پولیس حکام نے ایک ہینڈآؤٹ میں کہا کہ گلستان جوہر میں ایک تنظیم کی مجلس میلاد پر دھماکے کے بعد جہانگیر روڈ کے علاقے میں یہ آپریشن کیا گیا مگر شبر اعظمی اور ان کی اہلیہ کا تو کسی تنظیم سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
سینئر صحافی نادر شاہ عادل چند سال قبل ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوئے تھے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحقیق کرنے والے انسانی حقوق کمیشن کے کارکن خضر حبیب کہتے ہیں کہ کراچی میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی اس طرح کی کارروائیاں برسوں سے جاری ہیں۔ ان ایجنسیوں کے اہلکار عمومی طور پر رات کے آخری حصوں میں گھروں میں کود جاتے ہیں۔ الماریوں سے سامان پھینک دیتے ہیں اور گھروں میں موجود نوجوان لڑکوں کوساتھ لے جاتے ہیں۔جو نوجوان بے قصور ہوتے ہیں ان کی رہائی کے لیے لاکھوں روپے طلب کیے جاتے ہیں۔ان چھاپوں میں گھروں سے اٹھا کر لے جانے والے ایسے نوجوانوں کی خاصی تعداد ہے جو پھر لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوئے۔ ان اہلکاروں نے گزشتہ ماہ کراچی پریس کلب پر اسی انداز میں چڑھائی کی تھی۔ اب شبر اعظمی کا گھر ان کی لپیٹ میں آگیا ۔
ایک صحافی کے گھر پر چھاپہ چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آزادئ صحافت پر بھی حملہ تصور ہوتا ہے۔ ملک کا میڈیا ایک شدید بحران کا شکار ہے اور آزادئ صحافت کی راہ کو محدود کیا جارہا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور کے پریس کلبوں میں برطرف ہونے والے صحافیوں اور غیر صحافی عملے کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اب صحافیوں کے گھروں پر چھاپوں سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔شبر اعظمی نے ساری زندگی جدوجہد کی۔ انھوں نے کبھی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہمیشہ سادہ زندگی گزاری۔ ان کے اخلاق، حسن سلوک اور ایمانداری کا اعتراف ان کے نظریاتی مخالفین بھی کرتے ہیں، یوںاخباری صنعت سے متعلق ہر شخص جو اس خبر سے واقف ہے خوفزدہ ہے۔کیا وفاق اور صوبائی حکومتیں قانون کی پاسداری کا عزم کرنے والی ایجنسیوں کے لیے ایسا ضابطہ اخلاق نافذ کرسکتی ہیں؟یورپی ممالک کی طرح یہ ایجنسیاں کسی کارروائی سے پہلے اتنی معلومات جمع کرتی ہیں کہ ان کا کوئی بھی آپریشن صرف ملزموں کی گرفتاری کے لیے ہو۔ اس آپریشن سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہ ہو اور جو اہلکار اس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو اس کا احتساب ہو۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔