تحریر: انصار عباسی۔۔
سوشل میڈیا پر ایک خبر وائرل ہوئی جس پر چند ایک ٹی وی چینلز پر بات بھی ہوئی۔ خبر کے مطابق ایک نجی ائیر لائن میں اندرون ملک ہوائی سفر کے دوران ایک جوڑا نازیبا حرکتیں کرتا رہا، مسافروں کے منع کرنے پر بھی نہ رُکا، جہاز کے عملے نے روکا پھر بھی باز نہ آیا جس پر ائیر ہوسٹس نے جوڑے کو کمبل لا دیا تاکہ کم از کم جو حرکات وہ کر رہے ہیں، اُسے جس حد تک ہو سکے دوسروں کی نظروں سے چھپایا جا سکے۔ یہ بھی پتا چلا کی جب اس جوڑے کو ان حرکتوں سے منع کیا گیا تو اُنہوں نے اعتراض کرنے والوں کو کہا کہ وہ جو بھی کر رہے ہیں، اُن کا ذاتی معاملہ ہے جس سے کسی دوسرے کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ کون تھے، شادی شدہ تھے یا غیر شادی شدہ، مسلمان تھے یا کسی دوسرے مذہب سے اُن کا تعلق تھا، پاکستانی تھے یا غیرملکی، اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا لیکن یہ حرکت اُس ’’تربیت‘‘ کا شاخسانہ ہے اور اُس ماحول کی طرف ایک قدم ، جسے ہمارا میڈیا بلا روک ٹوک پروموٹ کر رہا ہے اور خوب پھیلا رہا ہے۔ اسلام کی بات کر لیں، اس ملک کے آئین کو لے لیں، قانون کو دیکھ لیں یا ہماری مروجہ معاشرتی اقدار کا جائزہ لے لیں، یہ واقعہ ہر لحاظ سے غلط اور قابلِ گرفت ہے۔ ایک مسافر نے باقاعدہ نجی ائیر لائن کو اس واقع کی شکایت بھی کی لیکن نازیبا حرکت کرنے والا جوڑا بلا روک ٹوک اور بغیر کسی مشکل کے اپنے ہوائی سفر کے اختتام پر اپنی منزل کو سدھار گیا۔ اگر کوئی ڈھٹائی پر اُتر آئے اور بےشرمی کی تمام حدوں کو پار کر لے تو ایسے افراد کے خلاف جہاز کا عملہ کمبل فراہم کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا تھا لیکن سفر کے بعد ائیر لائن کو متعلقہ جوڑے کے خلاف پولیس کو درخواست دینی چاہئے تھی، جو نہ دی گئی۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا میں ایسے افراد کی رائے بھی سامنے آئی یا لائی گئی جو اس بےشرمی کا دفاع کر رہے تھے۔ پہلے فحاشی و عریانی پھیلائیں، پھر جب معاشرے میں بےشرمی پھیلنا شروع ہو جائے اور حدیں پار کرنے لگے جس پر لوگ حیران و پریشان ہوں تو ایسے واقعات پر تجزیہ کاروں کا تجزیہ لیں جس میں کچھ تجزیہ کار ایسے واقعات کی مخالفت کریں تو باقی عوام کو یہ بتائیں کہ یہ کوئی سیریس معاملہ نہیں۔ گویا وہ جو اسلامی تعلیمات کے مطابق سختی سے ممنوع ہو، آئین و قانون کے مطابق جرم ہو، معاشرتی اقدار کے خلاف ہو اُسے اس انداز میں عوام کے سامنے پیش کریں کہ معاشرہ آہستہ آہستہ ایسی حرکتوں کو ہضم کرنا شروع کر دے۔ یہی کچھ مغرب میں ہوا، اُسی کی نقالی میں ہم بھی وہ ظلم اپنے معاشرے کے ساتھ کر رہے ہیں جس نے مغرب میں خاندانی نظام کو تباہ کر دیا، بےشرمی اور بےغیرتی کی اُس حد تک چلے گئے کہ جنسی لحاظ سے جانوروں اور انسانی رویوں میں کوئی فرق نہ رہا۔
ہم جس دین کے پیروکار ہیں اُس کی تعلیمات کے مطابق اور ہمارے ملک کے آئین و قانون کے تحت کسی عوامی جگہ پر نازیبا یا فحش حرکت قابلِ گرفت ہیں۔ کوئی اپنے گھر کی چار دیواری کے اندرکیا کرتا ہے، اس سے دوسروں کا کوئی سروکار نہیں۔ ہاں اگر گھر کے اندر کی خرابی یا بُرائی معاشرے کی خرابی کا ذریعہ نہیں بن رہی اور کسی ناجائز کاروبار سے منسلک ہے تو اس پر ریاست کو کارروائی کرنی چاہئے لیکن گھر سے باہر، عوامی مقامات پر چاہے جہاز ہو، سڑک ہو، پارک یا کوئی دوسری عوامی جگہ ہو، ایسے عمل بُرائی کو پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں اور اسی لئے قانوناً قابلِ گرفت ہیں۔ مغربی کلچر کی اندھی نقالی میں یہاں ایک طبقہ ایسے عمل کا دفاع کرتا ہے جس کا مقصد پاکستانی معاشرے کو اُس کی اُس رہی سہی اقدار سے بھی محروم کرنا ہے جو ہمارے خاندانی نظام کو ابھی تک بچائے ہوئے ہے اور جسے تباہ و برباد کرنے کے تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جس کے لئے سب سے زیادہ بربادی کا کام ٹی وی چینلز کر رہے ہیں۔ جب ٹی وی چینلز پر گندگی دکھائی جائے گی تو معاشرے پر بھی اُس کا ویسا ہی اثر ہوگا۔ جب گھر پر ٹی وی کے ذریعے آپ کے دل و دماغ کو غیراخلاقی اور فحش مواد دکھا دکھا کر اُسے آپ کیلئے نارمل بنا دیا جائے گا تو پھر معاشرے کے افراد، عوام کے درمیان بھی ایسی حرکتیں کریں گے اور یوں برائی کو عام کر دیا جائے گا اور یہی پاکستان میں ہو رہا ہے اور معاشرہ چپ سادھے بیٹھا ہے۔ اس بربادی کے سفر کو کون روکے گا؟ اس کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے لیکن سب سے اہم ذمہ داری ریاست کی ہے جسے ان معاملات پر بھی اپنی رٹ قائم کرنی چاہئے، چاہے میڈیا کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو۔(بشکریہ جنگ)۔۔