تحریر: خرم شہزاد
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سینسر شپ نافذ کر دی گئی ،ہمیں کام کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام کو اصل سچ سے بے خبر رکھنے کے لیے حکومت یہ سب کر رہی ہے۔ ظلم کی ایک اور سیاہ رات شروع ہو چکی اور اہل قلم کو ایک بار پھر جدوجہد کرنے کے لیے میدان میں اترنا پڑے گا۔ یہ اور ایسی کئی پوسٹیں آج کل بہت سے لوگوں کی فیس بکی دیواروں پر نظر آرہی ہیں، وہ لوگ جو اپنے آپ کو صحافی کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ ایسے لوگ اخبارات میں بھی کام کرتے ہیں اور مختلف میڈیا چینلز پر بھی ، لیکن ان کی فیس بک کے مطابق انہیں کام کرنے نہیں دیا جا رہا، عوام تک کسی بھی بات کے اصل حقائق پہنچانے اور بتانے کی پابندی ہے اور ان کی فائل کی ہوئی خبروں کی ایک بڑی تعداد اسی سینسر شپ کی نذرہو جاتی ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام تک اصل حقائق نہیں پہنچ پاتے جبکہ ہر خبر سے سے باخبر رہنا عوام کا بنیادی ہےاورعوام کو ان کے بنیادی حقوق سے ہی محروم کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں کی اس آہ و بکا پر ان کے دوست اور فالوورز اپنے اپنے حلقہ احباب میں ایک نئی بحث شروع کر دیتے ہیں اور حکومت پر لعن طعن شروع ہو جاتی ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو اس وقت اور بھیانک ہو جاتا ہے جب ہر کوئی ایسی باتوں کو مزید آگے پھیلانے لگتا ہے۔ جب آپ اپنی بات سے مطابقت رکھتی تین چار پوسٹیں بھی دیکھ لیتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ آج کا سچ تو یہی ہے اور جس چینل کو آپ دیکھ رہے ہیں، جس صحافی کو آپ فالو کر رہے ہیں ، جو اخبار آپ پڑھ رہے ہیں وہی اس سیارے کا سب سے بڑا سچ ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں لکھنے ، پڑھنے اور دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ناسمجھوں پر مشتمل ہے، ویسے تو میرا دل کوئی اور لفظ کو لکھنے کو چاہ رہا ہے لیکن کچھ رعایت اس لیے دی کہ اپنی آج کی مصروف زندگیوں میں سے یہ لوگ بہرحال کچھ وقت لکھنے ، پڑھنے اور دیکھنے کے لیے نکالتے ہیں بھلے وہ سارا وقت ضائع ہی کیوں نہ جاتا ہو، اس لیے ہمارے معاشرے میں کچھ بھی شیئر کر کے پھیلانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا کی سونامی کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ لوگوں میں خود سے سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کا جذبہ اور مادہ تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ آپ جس کو فالو کرتے ہیں وہ جو پوسٹ کر دیتا ہے وہی آپ کی پوسٹ ہو جاتی ہے، جو سوال اٹھا تا ہے وہی سوال آپ کی گفتگو کا حصہ بن جاتے ہیں، وہ جو دلیل دیتا ہے وہی آپ کی دلیل بن جاتی ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی بات، سوال یا دلیل سامنے آ جائے تو اپنے خالی دامن کی وجہ سے آپ اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔
اگرچہ میں اپنے ذاتی نظریات میں فوجی حکومتوں کے دور میں بھی کسی سینسر شپ کو نہیں مانتا لیکن بہرحال عوامی اور جمہوری حکومتوں کے زمانے میں ایسا کہنے والوں سے سوالات تو ضروری ہونے چاہیے کہ آخر کس سنسر شپ کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں میرے پڑھنے والے صحافی ان سوالات کا بہتر جواب دے سکیں گے کہ اگر آپ کے دعوے کے مطابق حکومت نے سنسر شپ نافذ کی ہے تو بتائے کہ اس سنسر شپ کو نافذ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ آخر ایسا کون سا سچ ہوتا ہے جو آپ بولنا چاہتے ہیں جس سے آپ کو روکا جاتا ہے؟ آپ سچ بولنا چاہتے ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ آپ کے خیال میں سچ کی اصل تعریف ہے کیا،آپ کسے سچ کہتے ہیں؟ میں ایک ناقص العلم شخص ہوں اس لیے مجھے آج تک یہ جملہ سوائے صحافیوں کی گفتگو کے کہیں نہیں مل سکا کہ ہر بات کا جاننا عوام کا بنیادی حق ہے اور اگر کوئی خبر ان تک نہ پہنچے تو یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی، یہ کہاں ، کس قانون ، کس کتاب میں لکھا ہے؟ ایک سینسر شپ سے دوسری سینسر شپ کے درمیانی دور میں ایسا کون سا کارنامہ ہے جو سچ بول کر صحافی انجام دے پائے ہیں؟ اور جس عوام کے لیے آپ اتنے پریشان ہوتے ہیں اور اتنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، آپ پر سینسر شپ نافذ ہونے کے بعد اس عوام کی طرف سے کب آخری بار عوامی احتجاج کیا گیا تھا، کوئی صحافی اس بارے بھی میری معلومات میں اضافہ کر دے؟
سچی بات یہ ہے کہ جس طرح فلم سٹارز کو کچھ عرصے بعد اسکینڈلز کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ویسے ہی صحافیوں کو ، اخبارات اور میڈیا چینلز کو سنسر شپ کے ڈھول بجانے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے تاکہ وہ ایک بار پھر حکومت اور عوام میں گرما گرمی کی فضا پیدا کر سکیں، اپنی ریٹنگ بڑھا سکیں اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔ لوگوں کو سچ بتانے کے دعویداروں کے اخبار یا ٹی وی اسکرین پر یہ خبر چلتی ہے کہ ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر پر حملہ ہو گیا تو میں سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ یہاں کون سی سنسر شپ نافذ تھی کہ اس دوسرے ٹی وی چینل کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ آخر سچ بتانے والوں کو ٹی وی چینل کا نام چھپانے کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ اسی طرح اکثر ہوائی حادثات یا جرائم کی خبروں کو بھی ایک نجی ائیر لائن میں یہ ہوا ، وہ ہوا۔۔۔ ارے بھئی اس نجی ائیر لائن کا نام کیا ہے جس کا جہاز حادثے کا شکار ہوا ہے ، جس کی ائیر ہوسٹس اسمگلنگ کرتے ہوئے گرفتار ہوئی ۔ اگر کوئی چینل کسی فلم یا کھیل کا سپانسر ہے تو دوسرے تمام چینلز اور اخبارات پر اس بارے میں مکمل بلیک آوٹ ملے گا جسے وہ ایونٹ یا فلم کسی دوسرے سیارے کی بات ہو ،کوئی تو بتائے کہ یہ کس سینسر شپ کے تحت ہو رہا ہے ۔ عوام سے کیوں چھپایا جا رہا ہوتا ہے کہ ہمارے مخالف چینل کی ریلیز کی ہوئی فلم اتنی کامیاب ہے یا فلاں ایونٹ صرف اس کی کوششوں سے پاکستان میں منعقد کیا جا رہا ہے۔ عوام کو ہر خبر سے باخبر رکھنے اور سنسر شپ پر حکومت کے لتے لینے والے صحافیوں نے کبھی یہ خبر نہیں دی کہ ہمارے چینل کے اتنے ملازمین کو فلاں ماہ سے ابھی تک تنخواہ ہی نہیں دی گئی ۔ یہ جو سیلف سنسر شپ ہر جگہ نافذ ہے اس کے بارے میں کوئی کیوں بات نہیں کرتا کہ اس طرح بھی تو عوام کے حقوق چھینے جا رہے ہیں اور انہیں صرف منتخب بات جسے آپ سچ کہہ رہے ہوتے ہیں بتائی جا رہی ہوتی ہے۔
یقینا آپ کے پاس قلم یا کیمرہ ہے جس کی وجہ سے آپ لوگوں اور حکومت کے بیچ میں کھڑے ہیں لیکن اسی قلم اور کیمرے کا غلط استعمال بھی آپ ہی کر رہے ہیں۔ سینسر شپ کی بات کرتے ہوئے آپ صحافی عوام اور حکومت کو ایک دوسرے کے سامنے لانے اور صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن ہمارے سوالوں کے جواب بھی تو کوئی دے ۔ عوام تو ویسے ہی نا سمجھ ہے، یہ سیاست دانوں کی بات بھی مان لیتی ہے اور میڈیا والوں کی بھی۔ آپ پر سنسر شپ نافذ کی گئی تو ہمارے سوالات کے جواب دیں لیکن ان جوابات سے پہلے سیلف سنسر شپ کے سوال کا جواب دیں کہ عوام کو آپ کے اپنے بارے میں کیوں بے خبر رکھا جا رہا ہے ؟ دوسری طرف لوگوں کو خود سوچنا ہے کہ صحافت کا یہ دوغلا پن ہمارے معاشرے کو جس سمت لے جا رہا ہے ، آپ نے اس کا انکار کرنا ہے یا یہی آپ کا بھی راستہ ہے؟(خرم شہزاد)۔۔
(انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کرنے والے خرم شہزاد کی پہلی تحریر ہماری ویب سائیٹ کے لئے،ترتیب کے اعتبار سے تو اس کا نمبر کافی روز بعد آنا تھا کیوں کہ جو تحریر پہلے ہم تک پہنچتی ہے پہلے شائع کی جاتی ہے، لیکن تحریر میں اتنی جان اور انفرادیت تھی کہ ہم اسے پہلے لگائے بغیر نہ رہ سکے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔