D chowk par kia hua

کیپٹل ٹاک کے ساڑھے 5 ہزار پروگرام آن ائر ہوچکے۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

میزبان حامد میر نے کیپٹل ٹاک کے 20سال کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ 2002ء کے الیکشن کے فوراً بعد جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک کا آغاز ہوا تھا، کیپٹل ٹاک ابتداء میں رات دس بجے ہفتے اور اتوار کے دن نشر کیا جاتا تھا، اس کے بعد کیپٹل ٹاک ہفتے میں تین دن پھر چار دن ہوگیا اور دس بجے کے بجائے آٹھ بجے نشر ہونے لگا، کیپٹل ٹاک کے تقریباً ساڑھے5ہزارپروگرام نشر ہوچکے ہیں۔ حامد میر نے بتایا کہ کیپٹل ٹاک کے بیس سال میں بہت سے نشیب و فراز آئے، پابندیوں کے باوجود کیپٹل ٹاک کا سفر جاری ہے، مشرف دور میں کیپٹل ٹاک پر چار مہینے کی پابندی لگی تھی، 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی کچھ عرصہ کیلئے کیپٹل ٹاک پر پابندی رہی، پچھلے سال جب عمران خان وزیراعظم تھے تو ہم پر تقریباً 9مہینے کی پابندی رہی، اس دوران کیپٹل ٹاک چلتا رہا ہمارے مختلف ساتھی یہ پروگرام کرتے رہے۔ خصوصی نشریے میں کیپٹل ٹاک کے بیس سال کے پروگرام کی جھلکیاں دکھائی گئیں، حامد میر نے بتایا کہ کیپٹل ٹاک کے پہلے پروگرام میں شریک شاہ احمد نورانی، مخدوم امین فہیم اور میرظفر اللہ جمالی اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس پروگرام کا موضوع تھا کہ ”کون بنے گا اگلا وزیراعظم؟“، اس وقت مقابلہ مخدوم امین فہیم اور ظفر اللہ جمالی کے درمیان تھا بالآخر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بن گئے تھے۔حامد میر کا کہنا تھا کہ کیپٹل ٹاک سے ہم نے مختلف سیاسی خیالات رکھنے والے لوگوں کو آمنے سامنے بٹھا کر بحث کا کلچر پروان چڑھایا، کیپٹل ٹاک میں اہم عوامی مسائل کے ساتھ بین الاقوامی مسائل خصوصاً مختلف علاقوں میں جاری جنگوں کے حالات بھی ناظرین تک پہنچائے، ہم نے عراق پر امریکی حملے کی عراق جاکر کوریج کی، ہم کئی دفعہ افغانستان بھی گئے، ہم نے فلسطین جاکر خان یونس اور غزہ پر اسرائیل کی بمباری بھی دکھائی، ہم نے لبنان اسرائیل جنگ کو بھی کور کیا، کیپٹل ٹاک نے چیچنیا اور شام جاکر وہاں کی صورتحال بھی دکھائیں۔ میزبان حامد میر نے بتایا کہ ہم نے2005ء میں آنے والے خوفناک زلزلے کے بعد آ زاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں جاکر کور کیا، 2010ء میں بہت بڑا سیلاب آیا جسے کیپٹل ٹاک نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں جاکر لوگوں تک پہنچایا، 2010ء کے بعد 2022ء میں بھی موسمی آفت آئی جو 2010ء کی موسمی آفت سے تین گنا بڑی تھی، ہم نے 2022ء میں بھی سیلاب متاثرہ علاقوں میں جاکر پروگرام کیے اور سیلاب متاثرین کی حالت زار اقتدار کے ایوانوں تک پہنچائی۔ میزبان حامد میر کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں ہم پر پابندی عائد ہوئی تو ہم سڑکوں پر کیپٹل ٹاک کے لائیو شو کیے، ہمارے فٹ پاتھوں پر کیے گئے کیپٹل ٹاک کے پروگرامز کو انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کوریج دی تھی، سی این این میں اس کی رپورٹ نشر ہوئی، واشنگٹن پوسٹ میں اس پر آرٹیکل لکھے گئے، ہمارے فٹ پاتھ کے شوز میں عمران خان مستقل آتے اور آزادئی صحافت کیلئے بڑے دعوے کیا کرتے تھے۔ میزبان حامد میر نے بتایا کہ کیپٹل ٹاک کے پروگراموں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہمارا اہم موضوع تھیں، لاپتہ افراد کے معاملہ کو ہم نے 2003ء سے فوکس کرنا شروع کیا جو آج تک ہمارا فوکس ہے۔ حامد میر نے بتایا کہ ہم نے کیپٹل ٹاک میں بہت سے عالمی رہنماؤں کے انٹرویوز بھی کیے،ہم نے کئی دفعہ پاکستانی و بھارتی فلمی ستاروں اور بڑے گلوکاروں کے ساتھ بھی گفتگو کی، کیپٹل ٹاک کے بیس سال کے دوران کچھ شوز اس لیے بھی لوگوں کو یاد ہیں کہ ان شوز میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے بارے میں بڑے دلچسپ ریمارکس دیئے تھے، ان میں عمران خان اور شیخ رشید کے درمیان ریمارکس کا حوالہ آج بھی دیا جاتا ہے، کیپٹل ٹاک کے کچھ ایسے شوز بھی تھے جن میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے بار ے میں افسوسناک ریمارکس دیئے تھے۔

ارشدشریف تصاویر لیک، پیمرا سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں