سوشل میڈیا نے جہاں صارفین کو آزادی اظہار رائے دی ، وہیں کئی لوگوں کے لیے اپنے آپ کو بچانہ بھی مشکل ہوگیا اور گزشتہ دنوں بھی نازیبا القابات اور ایڈیٹڈ تصاویر کی مد د سے صحافی ماروی سرمد، مبشرزیدی اور عمر چیمہ کو نشانہ بنا یا گیا ، ٹیگز اور ٹرینڈز کا سلسلہ بھی چلتا رہا جس پر صارفین نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ڈان نیوز کے مطابق ٹرینڈز کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ ماروی سرمد کے خلاف چلائی گئی مہم کے دوران صرف 2 گھنٹے کی مختصر مدت میں 11 ہزار ٹوئٹس کی گئیں، جمعہ کو مزید 7 صحافیوں کو بدسلوکی اور ہتک آمیز مواد کا سامنا کرنا پڑا جس میں سلیم صافی، ارشد وحید چوہدری اور فخردرانی شامل ہیں جن پر اپوزیشن جماعتوں سے رقم وصول کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ارشد وحید چوہدری پر کسی نامعلوم شخص نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سے پہلے سے طے کردہ سوال پوچھنے کا الزام لگایا جس کے بعد ان پر تنقید کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بعد انہوں نے ایک ٹوئٹ کر کے کہا کہ ’اس رجحان سے ٹرینڈز چلانے والوں کی تکلیف کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے‘۔
ڈان کی رپورٹ میں سوشل میڈیا پر تحقیق کرنے والے سعید رضوان کے حوالے سے بتایا گیا کہ ٹوئٹر صارفین نے ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے ان ہیش ٹیگز کو مقبول کیا گیا جس کی وضاحت کے لیے انہوں نے مختلف گرافک تصاویر بھی فراہم کیں،تصاویر میں 4 مرکزی ٹوئٹر اکاؤنٹس کی نشاندہی کی جو مشتبہ اکاؤنٹس کے ایک گروہ سے منسلک تھے۔دوسری طرف ٹوئٹر کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ پلیٹ فارم کسی فرد یا گروہ کو نشانہ بنانے یا ہراساں کرنے کے رویے کی اجازت نہیں دیتالیکن اس کے باجود ٹوئٹر پر بدسلوکی کے ان ٹرینڈز کے فروغ پر صحافیوں اور اور پالیسی پر کام کرنے والے افراد نے تنقیدی آواز اٹھانے والوں کے خلاف پروپیگنڈے اور دھمکیوں دینے کے سلسلے پر ٹوئٹر کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا۔
ٹیلی ویژن میزبان عمار مسعود نے فرضی اکاؤنٹس کو اظہارِ رائے کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ غیر مہذبانہ ٹوئٹر ٹرینڈز زیادہ تر فرضی اکاؤنٹس سے کیے جاتے ہیں جو ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، ٹوئٹر کو ان کا نوٹس لینا چاہیے ۔ وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد کا کہنا تھا کہ اس قسم کی مہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور وزارت داخلہ کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔