تحریر: عادل علی۔۔
چند دن قبل ایک نیوز چینل پر حامد میر کی الیکشن کے حوالے سے گفتگو سنی تھی کہ حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ اگر فلائیٹ کراچی سے اسلام آباد گئی تو سمجھیں معاملات ٹھیک ہیں اور اگر فلائیٹ کراچی سے دوبئی روانہ ہوئی تو سمجھیں معاملات ٹھیک نہیں ہیں اور الیکشن موخر ہونگے۔
دو جمع دو چار کریں تو حامد میر کا اشارہ سمجھنے والوں کے لیے بہت واضح تھا کہ وہ آصف زرداری کی بات کر رہے تھے۔ ایک آدھ دن کے بعد ہوا بھی کچھ یوں کہ صدر زرداری دوبئی چلے گئے اور بعد ازاں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بھی دوبئی پرواز کر گئے۔
کچھ دن بعد پہلے بلاول بھٹو اور بعد میں صدر زرداری بھی لوٹ آئے اور پیپلزپارٹی کے وہ رہنما بھی جن کے بارے میں اسٹاپ لسٹ میں نام کی شمولیت کی باتیں گردشیں کر رہی تھیں۔ ان میں شرجیل انعام، ناصر شاہ و مکیش چاولہ قابل ذکر ہیں۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے الیکشن کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے جبکہ پی ڈی ایم کے اہم اتحادی نون لیگ و مولانا فضل الرحمان حیرت انگیز طور پر الیکشن سے کنارہ کش ہیں اور پیپلزپارٹی کے رہنماوں کی باڈی لینگویج سے مجموعی طور پر محسوس یہ ہی ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوچکا ہے۔
جن اتحادیوں پر بار بار بھروسہ کر کے سیاسی اقدام لیے جاتے ہیں وہ ایک بار پھر دغا دے گئے ہیں۔ یہ مملکت خدادا کی بد بختی ہے کہ کسی بھی جماعت کو اکثریت نہیں لینے دی جاتی۔
جو بھی نئے “سر” آتے ہیں الحمداللہ اب تک کا ناقص تجربہ یہ ہی بتاتا ہے کہ وہ اپنی پوری محنت و جانفشانی سے ایسے اقدامات لیتے ہیں کہ ہمیں فورآٓ ہی پچھلے والے “سر” کی اچھائیوں کی یاد ستانے لگ جاتی ہے کہ اس سے تو وہ بہتر تھے۔
شاید ہمارے ہاں کلچکر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ہر آنے والا جانے والے کے کیے پر فورآٓ لیپا پوتی کا کام کر دیتا ہے۔
ملک میں اندرونی طور پر مہنگائی و معاشی بحران تو ہے ہی مگر ہم ایک بار پھر سے دہشتگردی کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ ہم پر پھر سے آئے دن حملے ہو رہے ہیں یہاں تک کہ طالبان اب اپنی کارکردگی کا کلینڈر بھی پیش کرنے لگے ہیں کہ ہم نے اتنے دن میں اتنے حملے کیے اور اتنا نقصان پہنچایا پر شومئی قسمت کہ ہم دشمن سے تحفط حاصل کرنے کے بجائے اپنے ہی ملک کے بارڈرز سے ہونے والی اسمگلنگ کو روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ قوم اب یہ سوال کرتی ہے کہ خواہ کرنسی ہو یا اناج گر وہ باہر جا رہا تھا تو جا کیسے رہا تھا کیونکہ سرحدوں پر تو “آپ” موجود ہیں اور اگر کوئی چیز ملک میں اسمگل ہو کر آبھی رہی ہے تو بھی “آپ” کے ہوتے ہوئے ہمارے بارڈر غیر محفوظ کیوں ہیں جبکہ ہم سنتے تو یہ ہی آرہے ہیں کہ تم چین سے سو سکو اس لیے “ہم” سرحدوں پر مامور ہیں۔
گر آپ واقعی مامور ہیں پھر یہ ماجرہ کیا ہوا جناب؟
احتساب کے نام سے چلائی جانے والی کیمپین بہت تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر چینی کے ٹرک و ڈالروں کا ذخیرہ برآمد کیا جا رہا ہے جو اسمگل ہونے جا رہا تھا۔ سیاستدانوں کے گھروں سے بھی برآمدگیاں جاری ہیں مگر اللہ جانے اب تک جتنی بھی برآدمدگیاں ہوئی ہیں وہ کبھی عدالتوں میں پیش و ثابت کیوں نہیں ہو سکیں۔۔۔
آج پندرہ ستمبر یوم جمہوریت بھی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کی بھی عجب داستان ہے۔
ہم سب ہی شدید جمہوری لوگ ہیں ہاں البتہ جمہوریت کی تشریح ہم سب کی اپنی اپنی ہے۔ ادارے اگر ہمارے حق میں مداخلت کریں تو وہ اچھے ہیں اور جمہوری قوتوں کے ساتھ ہیں اور اگر ادارے ہمارے مخالفوں کے ساتھ عہد وفا نبھا رہے ہیں تو وہ جمہوریت مخالف قوتوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
آج ہی کے دن مملکت خدادا میں ایک اور چیف جسٹس صاحب اپنی مکمل جابندارانہ اننگ کے ساتھ اپنی ساس کے آگے سرخرو ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے جاتے جاتے بھی ایک آمر کے اقدامات کو دوام بخشا اور نیب ترامیم ختم کر دیں۔ شوق وفا میں چیف صاحب یہ بھول گئے کہ دس میں سے نو ترامیم انہوں نے کاالعدم قرار دیتے ہوئے سیاستدانوں کے تمام مقدمات کو بحال تو کر دیا مگر دسویں ترمیم جس کا فائدہ عمران خان کو پہنچتا ہے کو نہ چھیڑنے سے کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑے گا۔
نیب اگر فعال ہوگا بھی تو نیب ہمیشہ حکومت کے اشاروں پر کام کرتا رہا ہے اور اس وقت آپ کے من پسند خان صاحب اور ان کی جماعت اپوزیشن میں ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان ان کو ہی پہنچنے والا ہے۔
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار لوگ اکثر شاہ کو سوچ سے زیادہ نقصان پہنچا جاتے ہیں اور یہ ہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا ہے۔
جسٹس بندیال کے دور کو اب تک کے ادوار میں عدلیہ کا بدترین دور سمجھا جائیگا۔ جاتے جاتے جسٹس بندیال نے ملک میں ناہمواری کو مزید تقویت بخشنے والا کام کیا ہے۔مقدمات بحال کر کے سیاسی انجنیئرنگ کا راستہ بحال کیا گیا ہے اب یہ راستہ بحال کیا گیا ہے یا کروایا گیا ہے جو بھی ہے مگر اس کا نقصان عوام کو ہی پہنچے گا۔
ہر ذی شعور کو سمجھ آرہا ہے اب کہ کون کیا کر رہا ہے مگر یہ تجربات نہ پہلے کام آئے اور نہ اب کام آئینگے کاش کہ “آپ” سمجھ پاتے۔(عادل علی)۔۔