تحریر: خرم علی عمران
سینہ گزٹ سے منقول ہے اور بڑا مشہور ہوا تھا اور شاید کہیں چھپا بھی ہو کہ جب سن اسی کی دہائی میں روس کے تعاون سے کراچی میں اسٹیل مل لگائی گئی تھی تواس پرو جیکٹ کی تکمیل کے بعد روس کی ٹیکنیکل ٹیم کی جب واپسی تھی تو ایک غیر رسمی گفتگو میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اس میگا پروجیکٹ کی تنصیب کے دوران کئی برس یہاں گزارے اب واپسی پر یہ تو بتائیں کہ یہاں کیا تجربہ رہا کیسا وقت گزرا؟ کیسا پایا وغیرہ تو اس ٹیم یا وفد کے سربراہ نے بڑا معنی خیز جواب دیا کہ بھائی صاحب! جب میں یہاں آیا تھا تو کیمونسٹ دہریہ یا ملحد تھا ،اب جارہا ہوں تو خدا کو مان چکا ہوں؟ پوچھنے والے نے اپنے اندر سے ابلتے ہوئے نعرہ ء تکبیر کو بڑی مشکل سے روکا اورتڑپ کر پوچھا کہ وہ کیسے، جواب ملا کہ ان چند سالوں کے قیام میں میں نے دیکھا کہ تمھارے اس ملک کو پی ایم سے لیکر پیون کی سطح تک سب اپنے اپنے حساب سے کھا رہے ہیں لیکن یہ ملک پھر بھی چل رہا ہے تو کوئی تو طاقت ایسی ہے جو اسے چلا رہی ہے اور شاید وہ وہی ہے جسے آپ لوگ خدا کہتے ہو۔
تو یہ بات چاہے دروغ بر گردن راوی کی مثل ہو لیکن اسی کی دہائی سے لیکر اب تک ہم نے سب سے زیادہ جس شعبے میں کام کیا ،ترقی کی اور نام پیدا کیا ہے وہ کھانے کا شعبہ ہے۔ ہر ایک الا ماشااللہ حصہ بقدر جثہ کھانے پینے میں لگا ہے اور ملک چلے جارہا ہے۔اگر دیکھا جائے تو اب ہر پڑھا لکھا بے پڑھا ،شہری دیہاتی، نوجوان یا بڑی عمر والا سب ہی کم و بیش اس وطن عزیز کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں، ہر ایک مہنگائی،بے روزگاری، صحت و صفائی کے مسائل، امن و امان، تعلیمی نظام کے نقائص،میرٹ کا قتل عام، اشرافیہ سے شروع ہونے والی سے لے کر ٹریکل ڈاؤن ایفکٹ کے نتیجے میں پیدا شدہ عوامی کرپشن اورپھر اس سے مزید پیدا ہونے والے دیگر چھوٹے بڑے مسائل، انصاف کا جمعہ بازار اور قانون و عدالت سے جڑے معاملاتِ بد اور اسی نوعیت کے بیسیوں دیگر چھوٹۓ بڑے معاملات اور الجھنوں سے خوب واقف ہے۔ میڈیا انفارمیشن کے اس دور میں اب کسی سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی اور جلد یا بدیر سب کو سب پتہ چل ہی جاتا ہے۔ کون کون کیا کررہا ہے،کہاں کہاں کس کس طرح سے اپنے فائدے کے لئے ہر طرح کے بگاڑ کو فروغ دیا جارہا ہے،کہاں کہاں کس کس طرح سے ملک کو کھایا جارہا ہے اور کیا کیا تماشے ہورہے ہیں سب کو کم و بیش پتہ ہی ہے۔ یہ سب معاملات اور مسائل بیشک اپنی جگہ بہت اہم ہیں لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ اصل میں ہمیں درپیش ہے وہ احساس زیاں کا فقدان ہے؎ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا۔۔۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔
اپنی ذات سے لیکر گلی، محلہ، ٹاؤن،شہر ،قصبات،دیہات ہر جگہ ذرا غور تو کریں کہ ایک عمومی بے حسی سی جیسے ہم پر مسلط ہوگئی ہے۔ ہم اب بڑے سے بڑے واقعے اور سانحے سے بس ایک ذرا سا وقتی طور پر متاثر نظر آتے ہیں اور پھر دوبارہ اپنی اپنی زندگی میں منہمک ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اجتماعی نقصانات کی پرواہ ہی جیسے نہیں رہی ہے ہاں انفرادی نقصانات پر ہم بڑے پریشان ہوتے اور بلکتے نظر آتے ہیں۔ ہمارےملک میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں ،ہر معاملے میں ہر سطح پر مختلف وجوہات بتا کر اتنا جھوٹ بولا گیا ہے کہ اب سچی بات پر بھی یقین نہیں آتا۔ اصل میں یہ جوبے حسی سی ہے یہ مایوسی کی ابتدائی شکل ہوا کرتی ہے اور اس بات کا انڈیکیٹر اور اشارہ ہوا کرتی ہے کہ ہم اب دھیرے دھیرے ایک قوم سے ایک بھیڑ بنتے جارہے ہیں۔ حکومتوں کو، اداروں، افراد کو مورد الزام ٹہرانا تو یہ بہت آسان کام ہے اور ہر ایک کا پسندیدہ مشغلہ بھی ہے کہ فلاں نے یہ کردیا،ڈھمکانے نے وہ! لیکن کبھی سوچا کہ ہم خود کیا کررہے اور کرتے رہے ہیں۔ بلا شبہ اس عمومی بگاڑ کی سب سے زیادہ ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے جو ماضی اور حال میں اختیارات کے حامل رہے اور وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائضِ منصبی کو بخوبی نبھانے میں کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہے سوائے کھانے پینے اور قرضے معاف کرنے اور کرانے کے جسکا ایک حالیہ دو ڈھائی سو ارب کا بڑا چرچہ ابھی بھی چل رہا ہے اور اسکرینوں پر اب اس حوالے سے بھی خوب رونق لگے گی ۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن کچھ تو ہم بھی،ہم عوام اور عام لوگ بھی ذمہ دار ہیں کہ نہیں، اگر نہیں تو بات ہی ختم پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں اوراگر ہم بھی اس ریاست پاکستان کے ایک شہری ہونے کی حیثیت سے خود پر عائد فرائض سے غفلت برتنے کے مرتکب ہیں تو پھر شکوہ کیسا کہ ہم ہی تو اپنے ساتھ یہ سب داؤ پیچ کھیلنے والوں کو سلیکٹ کرتے ہیں، ہم ہی تو گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں،ہم ہی تو ذرا سی ترغیب ،تحریص اور لالچ بلکہ بریانی کی ایک پلیٹ پر پھسل جاتے ہیں اور انہیں بار بار آزماتے ہیں جو ہر بار ہمیں سوائے خواب دکھانے کے اور آسرے دینے کے کچھ بھی نہیں کرکے دکھاتے ہیں۔ اور پھر جب کرپشن اور بد انتظامی کی چڑیا کھیت چگنے لگتی ہے تو ہم شور مچانا اور احتجاج کرنا شروع کرکے نئے ٹھگوں کے لئے راستہ ہموار کرنے میں جٹ جاتے ہیں اور درد بھرے نغموں سے اپنے دلوں کو بہلاتے ہیں۔ تو جب تک ہم یہ مذاق کرتے رہیں گے ہمارے ساتھ بھی ایسے ہی مذاق ہوتا رہے گا۔ ہم ایسے قومی معاملات اور فیصلوں میں جو براہ راست جلد یا بدیر ہمارے اپنی زندگی کو متاثر کرتے ہیں اسطرح عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں جیسے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں۔ پھر جب انکے اثرات سامنے آتے ہیں تو حیران و سرگرداں پھرتے ہیں۔ خدارا احساس زیاں کو جگائیے،اپنی اہمیت کو سمجھیئے اور اپنی شہری ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے خود اپنی مسائل مل بانٹ کر حل کرنے کی کوشش شروع کیجئے اور اپنی اپنی بھرنی کی مشق سے ذرا پرہیز کرتے ہوئے اجتماعیت کو فروغ دے کر کم از کم اپنی گلی ،محلے اور ٹائون کی سطح پر تو اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش شروع کیجئے پھر تبدیلی واقعی نظرآنا شروع ہوجائے گی۔(خرم علی عمران)