علی عمران جونیئر
دوستو،ملکی سیاست میں بزرگ سیاست دانوں کا بڑا چرچا ہے، چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ بزرگ سیاست دان گھروں میں بیٹھیں یا مدرسوں میں۔ اس بات کا اظہار وہ کئی بار اپنی تقریروں میں بھی کرچکے ہیں۔اب سمجھ نہیں آتا کہ بزرگ سیاست دان کسے کہا جائے؟ سائنس کہتی ہے کہ چالیس سال کی عمر کے بعد انسان ”میچیور” توہوجاتا ہے لیکن اس کے جسم پر عمر کے اثرات نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں، نظر کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے، بال سفیدی کی طرف مائل بہ پرواز ہوتے ہیں یا پھر غائب ہونا شروع ہوجاتے ہیں، خواتین ماں بننے کے مرحلے سے دور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح اور بھی کئی عوامل ہیں جو نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ انسان کی اصل زندگی 40 برس کی عمر کے بعد ہی شروع ہوتی ہے لیکن اب یہ کہنا بھی شاید مناسب ہوگا کہ وہ اسی عمر میں جوانی سے بڑھاپے کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ خواتین کی زندگیوں کے وہ دس سال خوب صورت ترین ہوتے ہیں جب وہ 29اور 30سال کے درمیان ہوتی ہیں۔مردوں کیلئے 40سال کی عمر جوانی کا بڑھاپا ہوتا ہے اور 50سال کی عمر بڑھاپے کی جوانی ہوتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ ساٹھ سال کی عمر کا بندہ ”سٹھیا” جاتا ہے۔ اب عوام کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ بزرگ سیاست دان کسے سمجھا جائے؟
باباجی نے گزشتہ دنوں ایک نشست میں بڑھاپے کی نشانیاں بتائی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ پینٹ شرٹ کے بجائے شلوار قمیض پہننے کو دل کرتا ہے۔ ۔۔ محفل میں جہاں گٹے گوڈوں کے درد پہ بات ہو وہاں فورا ًکان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ۔ کھٹی ڈکاروں اور بد ہضمی سے بچاؤکے مضامین میں دلچسپی یکلخت بڑھ جاتی ہے۔ ۔ ہر گھنٹے بعد قیلولہ کرنے کا دل کرتا ہے۔ ۔ آج سے دو سال پہلے کی اپنی تصاویر پہ دل فدا و قربان ہوتا ہے۔۔ خالص شہد، کلونجی اور دارچینی کی افادیت پہ سیر حاصل گفتگو کرنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔۔ اپنے ہم عمر لوگ یا خود سے چھوٹوں کو بھائی جان یا باجی کہنے سے تسکین ملتی ہے۔۔ ہاتھ کی گھڑی خریدتے وقت ڈیزائن سے زیادہ اس بات کا خیال رہتا ہے کہ ہندسے بڑے بڑے ہوں۔ ۔ فیشنی ٹائٹ کپڑے زہر لگنے لگتے ہیں۔ ۔ ماہ نور بلوچ پہ خوامخواہ غصہ آنے لگتا ہے۔ ۔ ہر وہ شخص جس کی بیوی آپ کی بیگم سے کم عمر اور خوبصورت ہو سے رشک و حسد محسوس ہوتا ہے۔ ۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے نیند آنے لگتی ہے۔ ۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے بعد تین بار گننے پہ بھی تسلی نہیں ہوتی۔ ۔ دروازہ لاک کر کے دو بار چیک کر کے ہی چین آتا ہے۔ ۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد ایک گھنٹے تک یہی وہم ستاتا ہے کہ ہیڈ لائٹس کھلی ہیں۔ ۔ سادگی اور کفایت شعاری پہ لیکچر دینے کو دل کرتا ہے۔ ۔ باہر کے کھانوں میں نقائص نظر آنے لگتے ہیں۔۔ سالن میں سے ادرک، پودینہ اور ہرا دھنیا چن چن کر کھانے کو دل کرتا ہے۔ ۔ کسی کی بیماری کے بارے میں سنیں تو اس کی ساری نشانیاں خود میں محسوس ہوتی ہیں۔ ۔
ایک موزہ کالا اور ایک گہرا نیلا پہن کر لگتا ہے کہ کسی کو فرق محسوس نہیں ہوگا۔ ۔ خود کو خوامخواہ کاکا/ کاکی سمجھنے کو جی چاہتا ہے۔ ہمارے دوست علیل جبران کا کہنا ہے کہ بڑھاپے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں،سوائے سیاست دان کے۔۔اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔ ۔بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندا بالکل مندا ہوتا۔ بوڑھوں کو بندی اورخاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔ انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے، بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعدلیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی فرماتے ہیں۔بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔
کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہوجاتا ہے۔بڑھاپا اتنا وفادار ہے کہ مرتے دم تک ساتھ نبھاتا ہے۔یہ کبھی پوچھ کرآتا ہے نہ دھکے دینے سے جاتا ہے۔بڑھاپا مغرب میں زندگی انجوائے اور ہمارے یہاں مرض انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھاجاتا ہے۔دانت جانے اور دانائی آنے لگتی ہے۔۔اولاد اور اعضا جواب دینے لگتے ہیں۔۔گھر کے کھانے اچھے لگنے لگتے ہیں۔۔جب اللہ،ڈاکٹر اور بیوی بہت زیادہ یاد آنے لگیں تو سمجھ جائیں کہ آپ بوڑھے ہوچکے۔۔دو بوڑھے جوڑے ایک ہوٹل میں اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ پہلا بوڑھا بولا۔۔ ارے یار پچھلے ہفتے میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک بہت اچھے ہوٹل میں کھانا کھایا تھا۔ وہ میری زندگی کا سب سے اچھا ہوٹل تھا۔ دوسرا بوڑھا پوچھنے لگا۔۔ اس ہوٹل کا کیا نام تھا؟۔ پہلا بوڑھا بولا۔۔ ارے یار میری یاداشت بہت کمزور ہو گئی ہے۔ مجھے اس ہوٹل کا نام یاد نہیں آ رہا۔ م سے لڑکیوں کا کونسا نام شروع ہوتا ہے؟ دوسرے بوڑھے نے نام بتایا۔۔ ماریہ۔ پہلا بوڑھابولا۔۔ ارے نہیں کوئی اور نام۔ دوسرا بوڑھا پھر کہنے لگا۔۔ مریم۔ پہلا بوڑھا۔۔ ہاں وہی۔ (اپنی بیوی کی طرف مڑتے ہوئے) مریم اس ہوٹل کا کیا نام تھا جس میں ہم نے پچھلے ہفتے کھانا کھایا تھا؟۔۔۔مغربی عورت اپنی عمر چھپاتی ہے نہ جسم۔۔لیکن ہمارے یہاں پینتالیس برس کی اداکارہ میرا آج بھی تئیس سال سے اوپر کی نہیں۔۔ اداکارہ ماہ نور بلوچ نے رواں برس اپنی اٹھائیس ویں سالگرہ منائی، اس کی تاریخ پیدائش انتیس فروری کی ہے۔۔
عام طور پر بڑھتی عمر کے ساتھ انسان مذہب میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔ وہ دنیا سے دور اور دین سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنا بچپن کھیل میں کھوتے ہیں اور جوانی نیند بھر سوتے ہیں، انہیں بڑھاپا دیکھ کر رونے کی نوبت آجاتی ہے۔ سماج میں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بچپن سے ہی مذہب کی آغوش میں پناہ پکڑلیتے ہیں۔ ان کی جوانی اور بڑھاپا دونوں خوش گوار گزرتے ہیں۔ دنیاداری اور دین داری کے بین بین ریاکاری کا وجود بھی پایا جاتا ہے۔ ریاکاری ایک طاقتور محرک ہے جو انسان کو دکھاوے کی عبادتوں میں مشغول کردیتا ہے۔ اس طرح انسان دنیا کو تو دھوکا دے سکتا ہے مگر اپنے رب کو نہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جوانی تو عمر ہوتی ہے سب کچھ جاننے کی اور بڑھاپا وقت ہوتا ہے یہ ماننے کا کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔