بزنس مارکیٹنگ کا آسان سا فارمولہ۔۔۔
تحریر: سید بدرسعید۔۔
مجھے بزنس مارکٹنگ کا یہ اصول ایک ہندو نے سکھایا تھا ۔ ہم شارجہ میں تھے ۔ میں پاکستان میں مسلسل ایک ہی طرح کے ماحول ، ڈیوٹی اور سیاست سے تھک چکا تھا۔ آپ اسے ری فریش کورس سمجھ لیں ۔ یہاں کی تمام الجھنوں سے جان چھڑا کر وہاں گیا تھا ، میرے پاس میوزک ، سیر ، ڈسکو سمیت موٹیویشنل لیکچرز کا ایک پیکج تھا ۔ یہ بھی ایک ایسا ہی لیکچر تھا ۔ میرے دائیں جانب امریکی لڑکی بیٹھی بوتل میں سے کچھ پی رہی تھی ۔ میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور ہال کے ایک کونے میں موجود ٹینڈر سے کافی کا کپ لے آیا ۔ گفتگو شروع ہو چکی تھی ۔
ہم سب زندگی کے ہنگاموں سے تنگ تھے لیکن اس کے باوجود جینا چاہتے تھے ۔ ہم بہت زیادہ پیسے بھی کمانا چاہتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے تھے کہ ہم دنیا کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکیں ۔ ہم خوش بھی رہنا چاہتے تھے اور انہی الجھنوں میں واپس بھی آنا چاہتے تھے ۔ ہم اپنے معاشرے اور ماحول سے فرار ہرگز نہیں ہو رہے تھے لیکن ہم فطرت کے قریب رہنا چاہتے تھے ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آوارہ گردوں کا گروپ تھا ۔ یہاں بھارتی بھی تھے اور پاکستانی بھی ، تھائی ، امریکی ، برطانوی اور رشین بھی تھے۔ ہم سب اس سے پہلے انٹرنیٹ اور واٹس ایپ کے ذریعے منسلک تھے لیکن مجھے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ میں ان میں کم آوارہ گرد تھا ۔ میری آوارہ گردی پاکستان تک محدود تھی جبکہ یہاں اکثر دوست ملک ملک گھومتے اور اپنی فاقہ مستی پر خوش ہوتے تھے ۔
بہرحال سچی بات یہ ہے کہ میں لیکچر سے زیادہ اپنے ساتھ بیٹھی گوری کی بوتل میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ دراصل کیا پی رہی ہے ۔ مجھے ہندو ٹرینر کے ایک جملے نے چونکنے پر مجبور کیا اور میں آج تک وہ بات نہیں بھول پایا ۔ اس نے کہا اب میں آپ کو بزنس مارکٹنگ کا اہم ترین اصول بتانے لگی ہوں جو آپ کی زندگی کو خوشگوار بھی بنائے گا اور آپ کی مارکٹنگ / پروموشن کو بھی طویل عرصہ تک بہتر بنائے گا۔ یہ اصول اسلام سے کشید کیا گیا ہے اور اسلام کے پھیلائو میں اس کا بڑا ہاتھ ہے ۔ اگر ایک مذہب اس طرح دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے تو آپ کا کاروبار کیوں نہیں پھیل سکتا ۔۔
ایک ہندو لڑکی کا اسلام کے کسی ایسے اصول کا بتانا جو مجھے معلوم نہ ہو ، میری توجہ مبذول کرنے کو کافی تھا۔ وہ کہنے لگی : آپ کو اکثر کہیں جاتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ نظر آتے ہوں گے ۔ کہیں کوئی گاڑی کسی کو ٹکر مار گئی یا کوئی بازار میں چلتے چلتے گر گیا۔ کوئی بزرگ اپنی طاقت سے زیادہ وزن اٹھانے کی کوشش میں نظر آتا ہے ۔ آپ ایک لمحے کے لئے رکتے ہیں ، پھر اسے سنبھلتا دیکھ کر اپنے کام چلے جاتے ہیں ۔ یہ غلط ہے ۔ آپ ایک بہت بڑی مارکیٹ کھو دیتے ہیں ۔ آپ جیسے ہی ایسا کوئی حادثہ دیکھیں ، فوری طور پر زخمی تک پہنچیں ۔ اس کا حال پوچھیں ، اسے اٹھائیں ، ایک طرف بٹھائیں اور پانی پلانے کی کوشش کریں ۔ اس کی حالت زیادہ سیریس ہو تو ایمبولینس یا ریسکیو کو فون کریں ۔ اس کے ساتھ ہسپتال تک جائیں اور اس کے لواحقین کو تلاش کر کے ان کے رابطہ کریں ۔ ان کے آنے تک اس کا خیال رکھیں ۔ یہ انسانیت ہے اور انسانیت سے بڑی بزنس مارکٹنگ کوئی نہیں ہو سکتی ۔ حالت سنبھلنے پر وہ آپ کا شکریہ ادا کرے گا ۔ اس سے اس کے بارے میں پوچھیں ، وہ آپ کے بارے میں پوچھے گا اور پھر آپ اسے اپنے کاروبار یا ملازمت کے بارے میں بتائیں گے ۔ سڑک پر گزرنے والے سیکڑوں لوگوں میں سے کسی کو اس قدر ہمدرد دیکھ کر وہ آپ کی جانب مائل ہوئے بنا نہیں رہ سکتا اور یوں آپ ایک نئی دوستی یا تعلق کی بنیاد رکھیں گے ۔ اسے اپنا نمبر یا بزنس کارڈ دیں گے اور اس کا نمبر لیں گے ۔ ایسا چند بار ہو گا اور پھر یہ آپ کا معمول بن جائے گا کہ آپ حادثہ دیکھ کر بے ضمیروں کی طرح گزر نہیں سکیں گے ۔
یہ لوگ شہر میں مختلف جگہوں پر رہتے ہوں گے اور ایک سال میں اس شہر میں آپ کا ایسا نیٹ ورک بن چکا ہو گا جو آپ پر اعتماد کرتا ہو گا اور آپ کی انسانیت پر بھروسہ کرے گا۔ آپ انہیں بھی یہی کہیں کہ حادثات دیکھ کر زخمی کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے ۔ ان میں سے مزید کچھ لوگ بھی آپ کی طرح یہی کام کریں گے ۔ یہ لوگ جہاں جائیں گے اپنی گفتگو میں لاشعوری طور پر آپ کا حوالہ دیں گے ۔ آپ سے منسلک کام کا ذکر ہو گا تو انہیں سب سے پہلے آپ یاد آئیں گے ۔
انسانیت اور بھروسہ بزنس ماکٹنگ میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اس کے بعد آپ شہر کے کسی بھی کونے میں اپنی برانچ کھولیں یہ آپ کے کسٹمر بنیں گے کیونکہ یہ آپ کو جانتے ہی نہیں آپ کی انسانیت پر بھروسہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ آپ کا چلتا پھرتا اشتہار ہیں ۔
دوستو! مجھے اس وقت یہ کتابی باتیں معلوم ہوئیں لیکن پھر سوچا اس کا تجربہ ضرور کرنا چاہئے ۔ پاکستان آنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ بعد دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کیفے کھولا ۔ ہم نے مقامی سطح پر مارکٹنگ نہیں کی ۔ علاقے میں بینرز بھی نہیں لگے ۔ ایک بار رات کو لگوائے تو صبح انتظامیہ نے اتار دیئے ۔ اس کے باوجود کیفے کے کسٹمرز میں ایک بڑی تعداد وہ تھی جو اس علاقے میں نہیں رہتی تھی ۔ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آنے لگے اور اپنے شہر میں بھی شہر کے دوسرے کونے سے کئی سو دکانوں اور کیفوں کو نظر انداز کر کے یہاں آنے والے کم نہ تھے ۔ یہ سب محبت ، دوستی اور انسانیت کی مارکٹنگ تھی۔ میں نے یہی مارکٹنگ رپورٹس اور خبروں کے لئے استعمال کی تو بھی بے انتہا فائدہ ہوا۔ ۔
بہرحال اس ہندو لڑکی نے دوسری بات اس سے بھی اہم کی ۔ کہنے لگی : میں آپ کو بزنس مارکٹنگ نہیں سکھا رہی ۔ میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ خوش کس طرح رہ سکتے ہیں ۔ خوشی دوسروں کی مسکراہٹ اور شکریہ میں چھپی ہے ۔ آپ دن بھر اپنے باس کی باتیں سنتے ہیں اور گھر آ کر ڈپریس رہتے ہیں ۔ یہ ڈپریشن ہی آپ کو یہاں تک لے آیا ہے ۔ آپ مسلسل تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں کیونکہ آپ ایک منفی بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ دفتر جاتے وقت اور واپسی پر کسی نہ کسی طرح دو مسکراہٹیں اور ایک شکریہ اپنے لئے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ کو دنیا خوبصورت لگنے لگے گی ۔ اگر آپ کسی بزرگ کو لفٹ دے دینا ، کسی کا سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھنے میں مدد کر دینا ،ساتھ والی گاڑی یا موٹر سائیکل پر بیٹھے بچے کو دیکھ کر مسکرانا یا منہ چڑانا اور اس کی حرکتوں کو انجوائے کرنا سیکھ لیں تو آپ خوش رہ سکتے ہیں ۔ دنیا اتنی بری نہیں جتنی ہم اسے اپنی نفرت آمیز گفتگو اور تنقیدی سوچ کی وجہ سے بنا لیتے ہیں (سید بدر سعید)