charsio ka sheher

بشری بی بی کی ڈائری

تحریر: جاوید چودھری۔۔
پنجاب پولیس 5 اگست 2023کو عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک پہنچی‘ یہ ان کے بلٹ پروف بیڈروم تک آئی‘ خان کو گرفتار کیا اور ایس ایس پی کی نگرانی میں انھیں ایئرپورٹ بھجوا دیا گیا‘ اس کے بعد خان صاحب کے بیڈروم کی تلاشی کا عمل شروع ہو گیا۔تلاشی کی ذمے داری ڈی آئی جی عمران کشور کو سونپی گئی‘ ڈی ایس پی ریس کورس‘ دو ایس ایچ اوز اور 10 لیڈی کانسٹیبلز ان کے ساتھ تھیں‘ بشریٰ بی بی اس وقت کمرے میں موجود تھیں‘ خان صاحب کے بیڈروم کے دو حصے ہیں‘ ایک حصہ سٹنگ ایریا ہے جس میں بڑے سائز کا صوفہ اور ایک ٹریڈ مل رکھی ہوئی ہے۔
دوسرے حصے میں بیڈ‘ سائیڈ ٹیبلز اور کنسول ہیں‘ بشریٰ بی بی نے پولیس ٹیم کو دیکھ کر کہا ’’آپ لوگ پولیس ہیں اور پولیس کو صرف پیسوں میں دل چسپی ہوتی ہے‘ میں خود بتا دیتی ہوں ہماری رقم سامنے الماری میں پڑی ہے‘ آپ بے شک وہ لے لیں‘‘ ڈی آئی جی نے ہنس کر جواب دیا ’’میڈم پیسوں کی ضرورت ہم سے زیادہ آپ کو ہوتی ہے۔ آپ ہمیں حکم کریں ہم آپ کی کتنی مالی مدد کریں؟‘‘ بشریٰ بی بی خاموش ہو گئیں‘ وہ اس وقت بااعتماد تھیں‘ پولیس کو وہ اعصابی لحاظ سے خان صاحب سے زیادہ مضبوط‘ پراعتماد اور کمانڈنگ محسوس ہوئیں‘ بشریٰ بی بی کی نشان دہی پر الماری سے رقم نکالی گئی۔یہ گیارہ لاکھ اور چند ہزار روپے تھی‘ نوٹ گن کر بی بی کے حوالے کر دیے گئے اور ان سے ریسیونگ لے لی گئی‘ ڈی آئی جی کو صوفے کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر چاندی کا ایک پیالہ دکھائی دیا‘ عمران کشور اس کی طرف بڑھے تو بی بی نے یہ کہہ کر انھیں روک دیا ’’تم باوضو نہیں ہو تم اسے ہاتھ نہیں لگا سکتے‘‘۔ عمران کشور نے ہنس کر کہا ’’بی بی آپ کو کیا پتا میں باوضو ہوں یا نہیں؟‘‘ اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے پیالہ اٹھا لیا‘ پیالے میں کپڑے کی ایک پوٹلی تھی۔ اسے کھولا گیا تو اس میں سے سیاہ سخت راکھ نکلی‘ یہ ہڈیوں کی راکھ تھی اور اس کے ساتھ ایک تعویز رکھا تھا‘ پیالے میں حروف مقطعات کی ایک لوح اور چھوٹی سی تسبیح بھی تھی۔
پولیس نے تصویریں کھینچ کر یہ اشیاء واپس رکھ دیں‘ پولیس کو بعدازاں بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے ایک سیٹلائیٹ فون اور سبز رنگ کی ایک ڈائری ملی‘ پولیس کو کمرے سے دو آئی فون بھی ملے‘ ایک فون خان صاحب کا تھا اور دوسرا بشریٰ بی بی کا‘ تصدیق کے بعد یہ تینوں فون تحویل میں لے لیے گئے اور فرانزک لیب بھجوا دیے گئے۔
پولیس نے بی بی سے پوچھا ’’کمرے کی بلٹ پروفنگ پر دس پندرہ کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں (کمرے کی کھڑکیاں تک بلٹ پروف تھیں) یہ رقم کہاں سے آئی؟‘‘ بی بی کا جواب تھا ’’میں نہیں جانتی‘ یہ خان صاحب نے کرائی تھی‘‘ کمرے سے چیک بکس‘ کاغذات اور گولیوں کے خول بھی ملے‘ یہ خول غالباً ڈیکوریشن پیس تھے۔ خان صاحب کے بیڈروم سے ملنے والی ڈائری منزل مقصود تک پہنچی اور اس کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا یہ وہی سبز رنگ کی ڈائری ہے جو اکثر خان صاحب کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد خان صاحب یہی ڈائری لے کر وزیراعظم ہاؤس سے نکلے تھے۔
ڈائری کے طرز تحریر کا خان صاحب کی ہینڈ رائٹنگ سے موازنہ کیا گیا تو دونوں میں فرق تھا جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوگیا یہ ڈائری اگر عمران خان کی ہے تو پھر اس میں تحریر کس کی ہے؟ اس سوال کا جواب چند منٹوں میں مل گیا‘ ڈائری اور بشریٰ بی بی کی ہینڈ رائٹنگ میچ کر گئی‘ ڈائری کا نئے سرے سے تجزیہ کیا گیا ‘پتا چلا بشریٰ بی بی روزانہ عمران خان کے لیے ڈائری میں ہدایات لکھتی تھیں اور خان صاحب ڈائری کے مطابق ان پر عمل کرتے تھے۔
اب سوال یہ تھا یہ ہدایات کس نوعیت کی ہوتی تھیں‘ پتا چلا وزیراعظم کے جاگنے سے لے کر سونے تک تمام معاملات ڈائری میں لکھے جاتے تھے اور خان صاحب ان پر من وعن عمل کرتے تھے‘ یہ ایک حیران کن انکشاف تھا‘ ڈائری کے آدھے صفحات پھٹے ہوئے تھے یوں محسوس ہوتا تھا یہ صفحے جلدی میں پھاڑے گئے ہیں بہرحال ڈائری کا تیسری مرتبہ تجزیہ ہوا‘ پھٹے ہوئے اوراق جوڑنے کا کام بھی شروع ہو گیا اور یوں انکشافات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
مجھے چند دن قبل یہ ڈائری دیکھنے اور پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ میں نے اس ڈائری میں کیا دیکھا‘ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو خان صاحب اور بشریٰ بی بی کے تعلقات کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ عمران خان اپنی بیگم بشریٰ بی بی کو اپنا مرشد سمجھتے ہیں اور یہ اس کا سرعام اعتراف بھی کرتے ہیں‘ خان صاحب کے مطابق یہ مذہبی اور روحانی شخصیت ہیں جب کہ جہانگیر ترین انھیں جادوگرنی کہا کرتے تھے‘ خان صاحب کا بی بی پر مکمل اعتقاد ہے۔
مجھے چند دن قبل علیم خان نے بتایا کہ بشریٰ بی بی نے وزیراعظم کو حکم دے رکھا تھا آپ نے مغرب سے پہلے ہر صورت گھر واپس آنا ہے چناں چہ وزیراعظم شام پانچ بجے بنی گالا میں ہوتے تھے‘ بی بی نے انھیں لندن جانے سے بھی روک دیا تھا لہٰذا یہ ساڑھے تین سال لندن نہیں گئے‘ اسٹیبلشمنٹ نے بڑی مشکل سے ان کے ایک دورے کا اہتمام کیا تھا۔ امریکی صدر بھی وہاں آ رہے تھے اور ان کی وہاں ان سے ملاقات طے تھی لیکن خان صاحب نے دورے سے ایک دن پہلے جانے سے انکار کر دیا‘ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں مانے اور اس انکار کی وجہ سے برطانیہ اور امریکا دونوں سے سفارتی تعلقات مزید خراب ہوگئے۔
بشریٰ بی بی کے حکم پر خان صاحب نے بابا فرید ؒ کی چوکھٹ پر ماتھا بھی ٹیکا تھا اور یہ مدینہ میں بھی ننگے پاؤں اترے تھے‘ جنرل باجوہ نے ایک دن ان سے کہا‘ وزیراعظم آپ ضعیف العتقادی کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے‘ وزیراعظم کا جواب تھا‘ جنرل صاحب میری بیوی ریڈ لائن ہے‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ سر ہر عزت دار شخص کی بیوی اس کی ریڈ لائن ہوتی ہے لیکن یہ اس کی مرشد اور عقیدہ نہیں ہوتی‘ آپ ریڈ لائن میں … تک چلے گئے ہیں۔
خان صاحب کا جواب تھا ’’بشریٰ بی بی 36 گھنٹے کا روزہ رکھتی ہیں اور انھیں کیا کیا دکھائی دیتا ہے آپ تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔ اس کے بعد گفتگو ختم ہو گئی‘ میری چھ ماہ قبل بشریٰ بی بی اور خان صاحب کے ایک قریبی ساتھی سے گفتگو ہوئی‘ میں نے خان کی اندھی عقیدت کے بارے میں پوچھا تو اس کا جواب تھا‘ بشریٰ بی بی نے 2016 میں عمران خان سے کہا‘ آپ 2018میں وزیراعظم ہوں گے اور یہ وزیراعظم بن گئے‘ انھوں نے کہا‘ جب تک فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی رہیں گے اس وقت تک حکومت محفوظ رہے گی۔
آپ دیکھ لیں جس دن جنرل فیض حمید کا تبادلہ ہوا حکومت اس دن گرنا شروع ہوگئی‘ بشریٰ بی بی نے کہا‘ عثمان بزدار وزیراعلیٰ ہیں تو پنجاب اور وفاق آپ کے ہاتھ میں ہیں‘ آپ دیکھ لیں وزیراعظم نے جس دن عثمان بزدار سے استعفیٰ لیا اس دن پنجاب اور وفاق دونوں خان کے ہاتھ سے نکل گئے‘ بشریٰ بی بی نے کہا‘ آپ جیسے تیسے مارچ گزار جائیں اپریل میں آپ اپنی پاپولیرٹی کی پیک پر ہوں گے۔
آپ اپریل کے بعد عمران خان کی شہرت کا لیول دیکھ لیں‘ بشریٰ بی بی نے بتایا‘ حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی آپ کو گرفتار نہیں کر سکے گی‘ ریاست اور حکومت 15 ماہ کی کوشش اور 182 مقدموں کے باوجود خان کو گرفتار نہیں کر سکی‘ 9مئی کو گرفتاری ہوئی تو ایک رات بعد قید خانہ ان کا مہمان خانہ بن گیا‘ بشریٰ بی بی نے کہا‘ آپ پر جب بھی ہاتھ ڈالا جائے گا ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی‘ آپ 9 اور 10 مئی کے واقعات دیکھ لیں‘ بی بی نے کہا تھا‘ عدلیہ آپ کی سب سے بڑی محافظ ہوگی۔
آپ آج تک عدلیہ کا رویہ دیکھ لیں اور بی بی نے کہا تھا آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگا لیکن دشمن ناکام ہوگا اور وہ ہوگیا لہٰذا آپ خود فیصلہ کریں جب بی بی کی تمام باتیں درست ہو رہی ہیں تو خان صاحب ان کی روحانیت پر یقین کیوں نہ کریں؟ میں یہ سن کر مسکرانے کے سوا کچھ نہ کر سکا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں جانتا تھا یہ فیض صرف روحانی نہیں تھا اس میں حمید بھی تھا‘ خان صاحب کو باقاعدہ چاروں طرف سے گھیرا گیا تھا اور یہ بری طرح بے بس ہوگئے تھے۔
میں اب ڈائری کی طرف واپس آتا ہوں‘ ڈائری کا رنگ سبز ہے اور یہ 2020کی ہے‘ یہ ایک برادر اسلامی ملک نے تحفے میں دی تھی‘ اس پر ملک کا لوگو بھی چھپا ہے اور اندر عمائدین سلطنت کی تصویریں بھی ہیں‘ ڈائری دسمبر سے جنوری کی طرف الٹی لکھی ہوئی تھی‘ 31 دسمبر سے 12 جولائی تک صفحات پھٹے ہوئے تھے تاہم ان کی باقیات موجود تھیں‘ ڈائری کی جِلد بہت مضبوط تھی شاید اس لیے صفحات کو مکمل طور پر اکھاڑا نہ جا سکا۔ (بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں