تحریر: خالد فرشوری
میں نے بُلبُلِ ہند لتا منگیشکر کا انٹرویو تو کبھی نہیں کیا، مگر نوے کی دہائی کے اوائل میں مرحوم معین اختر کے ساتھ ممبئی کے مختصر دورے میں ،ایک ایسی تقریب میں جانے کا اتفاق ضرور ہوا جہاں موسیقار انو ملک کے بھائی اور اپنے میزبان ابو ملک کے توسط سے میری لتا جی کے ساتھ ایک سرسری ملاقات ہوئی، روائتی سفید ساڑھی میں ملبوس لتا منگیشکر سے میرا تعارف پاکستانی صحافی کے طور پر ہوا تو فرطِ جذبات سے، وہ اپنے پاکستانی مداحوں، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن اور استاد سلامت علی، نزاکت علی، کا نام لیتے ہوے آبدیدہ رہیں،یہ نام لیتے ہوے انہوں نے عقیدتا” ہاتھ جوڑے رکھے، اسی دوران لتا جی کے برابر میں بیٹھی ہوئی آرگنائزر خاتون نے، میرے لئے نشست چھوڑ دی، مجھے اندازہ تھا کہ لتا کے برابر بیٹھنے کے باوجود ، مختصر وقت میں مجھے برصغیر کی اس لیجنڈ گائیکہ سے بہت کچھ پوچھنے کا موقع نہیں ملے گا مگر کیرئیر کے اوائلِ میں سنسنی خیز سوالات کا شوق، مجھے مجبور کر رہا تھا کہ اپنی ملاقات کا وقت ختم ہونے سے پہلے میں ایک مہمان پاکستانی صحافی ہونے کا ایڈوانٹیج لیتے ہوے ان سے یہ پوچھ لوں کہ انہوں نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ براہِ راست یہ سوال کرنا بھی لتا جی کے شایانِ شان نہیں تھا، چنانچہ، ایک سکینڈ کے ہزارویں حصے میں مجھے خیال آیا کہ کیوں نا کرکٹ سے لتا کی محبت کو بنیاد بنا کر کوئی خبر نکلواوں؟ سابق بھارتی کرکٹر اور بھارتی بورڈ آف کرکٹ کنٹرول کے سابق صدر راج سنگھ ڈنگر پور اور لتا جی کے جذباتی تعلقات کے حوالے سے میں پڑھتا رہا تھا، میں نے ، دُبئی میں ہونے والی اپنی اور ڈنگر پور کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوے پوچھ لیا کہ کہ کرکٹ سے لگاؤ نے آپ کو راج سنگھ ڈنگر پور سے متعارف کروایا یا ڈنگر پور صاحب کی صحبت نے آپ کو کرکٹ کا دلدادا بنایا؟
لتا جی اس سوال پر پُرانے زمانے کی ہندوستانی عورتوں کی طرح مُسکرائیں، اور کہا کہ
” نہیں نہیں، راج سنگھ سے تو ہمارے فیملی ٹرمس ہیں،ہمارے بھائی ہریدیانت کے ساتھ ان کی پرانی دوستی تھی اور کرکٹ کے ساتھ ہماری پُرانی دوستی تھی”
لتا جی نے پاکستانیوں کے نام محبت بھرا پیغام دیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ جلد کوئی موقع ملے اور وہ پاکستان آسکیں،لتا جی تو کبھی پاکستان نا آسکیں مگر ان کے گیت انہیں کروڑوں پاکستانی مداحوں کے دلوں میں زندہ رکھے رہے۔
لتا منگیشکر نے، میوزک انڈسٹری پر راج کیا،درجنوں زبانوں میں تیس ہزار سے زائد گیت گاے،آٹھ دہائیوں تک فن کی دنیا پر حُکمرانی کی، انہوں نے عزت شہرت دولت سب کمائی، مگر شادی کیوں نہیں کی؟
یہ سوال ان سے کرتے سب تھے اور اکثر لوگوں کو یہ پتہ بھی تھا کہ دراصل لتا نے شادی کیوں نہیں کی مگر بھارتی میڈیا بھی احتراما” ان کی نجی ذندگی کے اس مخفی پہلو کو مخفی رکھ کر ان کی فنی عظمت کا پاس رکھے رہا، وہ سب کو یہی جواب دیتی تھیں کہ فنی مصروفیات اور بھائی بہنوں کو ماں کی طرح پالتے ہوے انہیں شادی کا ٹائم ہی نا ملا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ راج سنگھ ڈنگر پور اور لتا منگیشکر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے،راج سنگھ ڈنگر پور راجھستان کی شاہی فیملی کے چشم و چراغ تھے، انہوں نے اپنے والد اور والیِ ڈنگر پور مہراوال لکشمن سنگھ جی سے جب لتا کے ساتھ اپنی شادی کی اجازت چاہی تو باپ نے صاف انکار کر دیا اور خاندانی روایات کے برخلاف ایسا کرنے پرسنگین نتائج بھگتنے کی تنبیہ کر دی، راج سنگھ نے باپ کا حُکم مانتے ہوے لتاسے شادی تو نا کی مگر سچے عاشق کا ثبوت دیتے ہوے زندگی بھر کنوارے ہی رہے، لتا نے بھی پیار نبھایا اور مرتے دم تک شادی نہیں کی، راج سنگھ اور لتا کی دوستی بھی آخر دم تک برقرار رہی،راج سنگھ ڈنگر پور سن ۲۰۰۹ میں الزیمر کی بیماری کا شکار ہو کر چل بسے ،مگر لتا کے ساتھ دنیا بھر میں کرکٹ میچ دیکھتے ہوے ہمیشہ ان کے برابر والی نشست پر پاے گئے،لتا جی کی جینٹلمینز کے کھیل کرکٹ سے محبت کہہ لیں یا کرکٹ کے جینٹلمین سے محبت کا شاخسانہ، لتا کو کرکٹ سے بھی والہانہ عشق ہو گیا،ممبئی میں لتا کا گھر”پربھو کُنج” دلیپ وینگسارکر،سُنیل گو آسکر اور پھر سچن ٹنڈولکر تک کا دوسرا گھر بنا رہا، کوئی کرکٹر لتا جی کو سرسوتی ماں کہتا تھا تو کوئی پیار سے انہیں” آئی” کہہ کر مخاطب کرتا تھا، یہ کرکٹ سے محبت تھی یا کرکٹر سے ناکام محبت کا اظہار تھا مگر لتا جی نے لارڈز کرکٹ گراونڈ سے متصل ایک گھر بھی خریدا،بی سی سی آئی کے ایک سابق سربراہ اور ٹی وی اینکر راجیو شُکلا نے مجھے بتایا کہ لتا جی اکثر انہیں فون کرکے بھارتی ٹیم کے میچ ہارنے کی وجوہات معلوم کیا کرتی تھیں،لتا جی کرکٹ کی تاریخ سے متعلق ریکارڈز بھی اپنے پاس جمع رکھتی تھیں،سن ۱۹۸۳ کا ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے منیجر بھی راج سنگھ ڈنگر پور تھے،فاتح ٹیم کو شایانِ شان استقبالیہ دینے کے لئے، کنگال بھارتی کرکٹ بورڈ کے پاس بمشکل ساٹھ ہزار روپے کے فنڈز تھے،پانچ پانچ دس ہزار روپے کے اسپانسرز بمشکل دستیاب ہو رہے تھے، ایسے میں،اس وقت بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر ایس این سالوے کے ذہن میں بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میری ہی طرح راج سنگھ ڈنگر پور کا نام آیا، اور انہوں نے راج سنگھ سے درخواست کی کہ وہ فنڈ ریزنگ کنسرٹ کے لئے لتا جی سے خُصوصی درخواست کریں، لتا جی نے فورا” یہ درخواست مان لی، دہلی کے اندرا گاندھی کرکٹ اسٹیڈیم میں لتا جی کا کنسرٹ ہوا، دلیپ کمار اور راجیو گاندھی بھی آے،لتا کے ساتھ سُریش واڈیکر اور نیتن مُکیش بھی نغمہ سرا ہوے، یہاں لتا کے بھائی ہریدیانت کا کمپوز کیا ہوا مشہور گیت “بھارت وشوا و جیتا” پرفارم ہوا، اور اس وقت کے اعتبار سے بیس لاکھ روپے کے بھاری فنڈز جمع ہوے، جس کی مدد سے فاتح بھارتی ٹیم کے چودہ کھلاڑیوں کو ایک ایک لاکھ روپے نقد انعام مل سکا، جینٹلمینز کے کھیل کرکٹ یا کرکٹ کے جینٹلمن سے محبت کرنے والی لتا کی اس خدمت کے اعتراف میں بھارتی کرکٹ بورڈ نے یہ مہربانی کی کہ تا دم مرگ، بھارت کے کسی بھی گراونڈ میں ہونے والے انٹرنیشنل کرکٹ میچ کے لئے لتا جی کی دو وی آئی پی نشستیں مخصوص کر دی گئیں، لتا منگیشکر کا اصل نام ہیما تھا مگر ان کے اسٹیج اداکار والد دینا ناتھ نے اپنے ایک تھیٹر کے کریکٹر “ لاتیکا “سے متاثر ہو کر ہیما کا نام لتا رکھ دیا اور پھر آٹھ دہائیوں تک ایک زمانہ لتا لتا کرتا رہا، یہ اور بات ہے کہ صرف ایک شخص تھا جو لتا منگیشکر کو پیار سے “ مٹھو “کہتا تھا، اور وہ تھے راج سنگھ ڈنگا پور، 1942 میں مراٹھی فلم “کٹی حصل” کے لئے لتا جی نے اپنی زندگی کا پہلا گیت گایا تھا وہ فلم آج تک ریلیز نا ہو سکی، اور یہ راز بھی آفیشل طور پر آج تک فاش نا ہو سکا کہ سروں کی ملکہ لتا منگیشکر نے شادی کیوں نہیں کی۔بس سب یہی جانتے ہیں کہ لتا نے اپنی زندگی فن اور بھائی بہنوں کے لئے وقف کردی تھی، جبکہ راج سنگھ ڈنگر پور لتا کے فیملی فرینڈ تھے۔۔۔۔ آہ لتا جی آہ۔۔(بشکریہ جنگ)