بجھارتیں۔  امی کی سنائی گئی   کہانی سے اقتباس

تحریر: عبدالرحمان گوندل

میری امی کو میرے ماموں کے بچے  ہم بہن بھائیوں سے بھی زیادہ پیارے تھے ۔ گرمی کی چھٹیوں میں  سکول سے فراغت ہوتی تو  اسی   مہینے جون میں  ہمارے گاؤں  کے باہر   بزرگ کے دربار پر سالانہ میلہ لگتا تھا ۔ سارے رشتہ داروں کے بچے  میلہ دیکھنے  آجاتے۔  میں اس وقت تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا ۔  گرمی کی چھٹیاں ہوئیں تو میلہ بھی سج گیا ۔  تو ماموں کے صاحبزادے بھی آگئے ۔ ہوتا کچھ یوں تھا کہ ماموں کے صاحبزدگان جب تشریف لے آتے تو ہم گھر میں اجنبی سے ہوجاتے ۔   کچھ ایسا ہی اس بار  بھی ہوا ۔  ان کی موجودگی  میں امی  کی کم توجہی کے  باعث میں کسی بات پہ ناراض ہوکر کھانا نہ  کھانے کی ضد کر بیٹھا ۔ امی نے کچھ دیر تو توقف  کیا کہ ابھی بھوک لگے گی تو کھا لے گا۔ لیکن میں اپنی ضد پہ قائم رہا ۔ تو امی  سے رہا نہ گیا ۔ منتیں کر نے لگیں اور ساتھ  کہانی سنانے کی پیشکش  بھی کردی ۔ لو جی  اب سارے ووٹ میرے ساتھ ہوگئے کہ  یار کھانا کھالو سب مل کر کہانی سنیں گے ۔   سو کھانا خوشی خوشی کھا کر  امی  کے آس پاس اکٹھے ہوگئے ۔

امی  نے کہانی سنانی شروع کی۔  کہ پہلے وقتوں میں لوگ  20 کی گنتی یاد رکھتے تھے ۔  اور یہ میرے اپنے مشاہدے کی بات بھی ہے کہ گاؤں کے سادہ لوح لوگ  20 کا پہاڑہ  ہی  جانتے  تھے ۔ اگر ان کو  گنتی میں 20 کے علاوہ کوئی بات  بتادی جاتی تو حیرت سے منہ تکنے لگتے ۔    ان کی گنتی  کچھ ایسے تھی ۔ پنج ویہاں دا سو  ہوندا(20×5=100)۔  چار ویہاں  دا سی ۔ (20×4=80)۔  اس بیس  کے پہاڑے کے علاوہ ان کو کوئی عدد  سمجھ میں  نہ آتا تھا۔   تو اسی بیس   کی گنتی  کی ماہر  ایک    مالدار گھرانے کی دوشیزہ  کے چرچے تھے ۔ اس کا کہنا تھا کہ جو  20 تک  گن لے گا  اس سے شادی کروں گی ۔    بڑے بڑے پھنے خانوں  کے رشتے آنے لگے ۔      20 کی گنتی  نہ سنا  سکے  اور  ناکام ہوئے ۔وہ   دوشیزہ   اعداد کی گنتی  کے علاوہ  حقیقت کی گنتی   سننا چاہتی تھی ۔    کئی  پڑھے لکھے  آتے  انٹرویو دیتے  ۔ دوشیزہ   کی  یہ بھی شرط تھی کہ  جو گنتی نہ سنا سکتا اس ناکام امیدواروں کو   چھتر مار مارکر گھر سے نکال دیتی ۔  ایک صاحب   ولایت  سے   تعلیم یافتہ    آئے ۔  وہ اپنے   دوست احباب کو  ولایت کے رنگ برنگے قصے سناتے ۔ ایک  دن دوست نے کہا ۔ یار تو  ہمیں وہاں کے بڑے  قصے سناتا ہے ۔ یہاں  قریبی گاؤں میں ایک خوبصورت اور مالدار  لڑکی ہے  ۔ جس   کو 20 تک گنتی  سنانے والا رشتہ چاہیے ۔   ولایتی پلٹ    فوراً سے پہلے چیلنج کیلئے تیار ہوگیا ۔   لہذا ولایتی لباس زیب تن کیا اور       گھوڑے پر سوار ہوکر اس گاؤں کی راہ لی ۔ راستے میں ایک  گنجا چرواہا ملا  ۔  اس نے روک کر پوچھا  صاحب کہا ں  چلے ۔ تو ولایتی پلٹ نے اسے جھڑ ک دیا۔  گنجے  چرواہے نے کہا ، معلوم ہے  20 کی گنتی  کیلئے جارہے ہو۔لیکن یہ   جان لو   کہ واپسی پہ  بری   طرح پِٹ کر آؤ گے ۔ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے ۔

اس شخص نے  اس گاؤں میں  پہنچ کر اپنے گھوڑے      کو ٹانگوں سے پیچھے کی طرف اور   آگے بھی  رسی سے  باندھ دیا ۔  جب وہ خوبصورت  دوشیزہ کے  گھر جاپہنچا۔    مذکورہ  لڑکی  چوبارے  پر رہتی تھی ۔   ولایت پلٹ  نے دستک دی  تو   پوچھنے پر جواب دیا کہ   20 کی گنتی سنانے آیا ہوں ۔  بولا گیا  نہیں سنا پاؤ گے۔  کہا ۔ یہ  بائیں  ہاتھ  کا کھیل ہے ۔  سو اوپر  چوبارے پر بلالیا گیا ۔   لڑکی   خود اونچے سٹول پر بیٹھی تھی جبکہ سائل کیلئے سامنے ایک چھوٹا  سٹول  رکھوایا گیا ۔  لڑکی  بولی باؤ جی    تو آپ گنتی کیلئے آئے ہیں ؟ جواب دیا ہاں  گنتی کیلئے   آیا  ہوں ۔ بولی ۔  شروع کرو۔  صاحب نے  ۔  ایک۔ دو ۔ تین۔ چار  گننا شروع کیا۔ لڑکی  نے چھتر ہاتھ میں  پکڑ لیا ۔ صاحب کو خدشہ ہوا  کہ شاید  لڑکی پڑھی لکھی ہے   ۔ انگریزی  ۔ فارسی اور  عربی سمجھتی ہو گی ۔  سو جھٹ سے   پینتر ا بدلا اور بولا ۔ ون ۔ ٹو۔ تھری۔  لڑکی نے چھتر اور اونچا  کیا تو  صاحب  نے فوراً گنتی  تبدیل  کرکے  اول ، دوم ،سوم چہارم  ، پنجم  تک گنی ۔۔ لڑکی  نے پٹاخ پٹاخ چھتر مارنے شروع کرد یئے۔  چمڑے سے بنے چھتر  جب سر میں  پڑے تو  ولایتی کو ہوش نہ  رہا ۔ چوبارے سے چھلانگ لگائی  اور سرپٹ بھاگے ۔ گھوڑے کی آگے والی رسی  کھولی  ۔  پیچھے ٹانگوں والی  رسی کھولنی یاد نہ رہی ۔   ایڑ لگا ئی تو  گھوڑے نے   زور  سے   کلہ اکھاڑ لیا۔  اب گھوڑا سرپٹ  بھاگا تو پچھلی رسی سے بندھا کلہ   سوار کے سر میں  آ کر پڑتا۔   جب گنجے کے پاس گزرا تو اس نے گھوڑے کو روک لیا۔ کہا ۔  سناؤ میاں کیا بیتی ؟  بولا  ۔ کیا پوچھتے ہو ابھی تک پیچھے سے  وہ کیسے مار تی آرہی ہے ۔   گنجا چرواہا بولا ۔ بھولے ولایتی وہ    نہیں مار رہی  تم   نے بھاگتے ہوئے  گھوڑے کی پچھلی رسی نہ کھولی  ۔ وہ کلہ   تمہارے سر میں لگ لگ کر لہو لہان کرگیا۔  کہا  تھا  نا ۔ تمہارے بس کی بات نہیں ۔

 اب  ایک کام کرو ۔ میری بات مانو ۔  میری بکریاں چراؤ ۔  میں  20 کی گنتی سناکر آتا ہوں ۔  اس نے کہا  تم   اپنی شکل تو دیکھو تو  جو گنتی وہ سننا چاہتی ہے وہ  کہا ں اور تم کہاں ۔ اس نے کہا تم میری  بکریاں چراؤ ۔  میں ابھی  یہ  بجھارت    حل  کرکے آتا ہوں ۔ اب  اس نے حامی بھرلی ۔ گنجے نے گھوڑے پر بیٹھتے ہی گھر کی راہ لی ۔اور گھر  جاکر  پہلے لسی  پینے کیلئے چاٹی   کھولی ۔  لسی پینے لگا تو گنجے کی ماں جو  آنکھوں سے  نابینا تھی۔ اس نے سمجھا  کوئی جانور برتن  کے پاس   ہے ۔  دھتکارنے  پر اس نے بتایا کہ  میں گنجا تیرا پتر ہوں ۔   ماں نے کہا  گنجے تو اس وقت یہاں ۔؟ تیر ی بکریاں کدھر ہیں ۔ گنجا بولا۔ بکریاں  ولایتی چرا رہا ہے  میں آج 20 کی گنتی گننے جارہا ہوں ۔   ماں نے حیران ہو کر پوچھا  ۔ گنجے  تو  20 والی گنتی  کیسے گنے گا ۔ یہ  تو ٌبڑے پڑھے لکھوں کا کام ہے ۔ گنجا بولا کہ  ماں میں کسی سے کم ہوں کیا۔  ؟

اب چرواہے نے اپنا کھیس اور چادر  کندھے پر رکھی اور ہاتھ میں بڑا سا ڈنڈا   پکڑ لیا۔  اور چلا   نازنین کے گاؤں کی طرف۔  وہاں پہنچ کر  دروازے پر دستک دینے کی بجائے  ڈنڈا  اتنے زور سے مارا کہ درو دیوار ہل کر رہ گئے ۔ اب  اوپر سے آواز آنے کی بجائے  گھر کی  نوکرانی دوڑ کر آئی   کہ دیکھوں  کیا  مصیبت  آن پڑی ہے  ۔ پوچھا کون آیا ہے ۔   بتایا کہ رانی کی  20 گنتی  گننے  آیا ہوں ۔ نوکرانی نے گنجے کو   بازو سے پکڑاور  سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ آدھی سیڑھیوں سے پہلے  گنجے نے بازو چھڑوا کر نوکرانی کو دھکا دیا  ۔ کہ میں کوئی لنگڑا یا معذور ہوں خود جاؤں  گا اوپر ۔  نوکرانی   کو کوئی صورت نظر نہ آئی تو فوراً بولی    گنتی سے پہلے میرے چار سوالوں کے جواب دینے ہوں گے ۔   کہا ۔ پہلے تم پوچھ لو جو پوچھنا ہے ۔ نوکرانی بولی ۔  عرش کا پھول ۔ زمین کا گُل ۔ بے وقتی نماز اور بے نقطی کتاب   کیا چیزیں ہیں ۔  گنجے نے پہلے سر کھجایا   اور  کہا  یہ تو بڑے مشکل سوال ہیں ۔ لو  سنو۔  عرش کا پھول  قطب ستارہ  ہے  جس میں نور  چمکتا ہے تو  بے سمت لوگوں کو  راہ دکھائی دیتی ہے ۔   اور زمین کا گل  زمین پر نبی پاک  ﷺ کا روضہ ہے ۔  بے وقتی نماز   کسی کی نماز جنازہ  ہے جو کسی بھی وقت   پڑھی جاسکتی ہے ۔  اور بے نقطی کتاب انسان کی زبان ہے جو   بغیر   کسی روک ٹوک  کے چتر چتر  کرتی جاتی ہے ۔  اس  میں ہڈی نہیں  لیکن ہڈیاں تڑوا دیتی ہے ۔  نوکرانی چپ ہو کر گنجے کے پیچھے ہولی ۔ دوشیزہ کے پاس جاکر نوکرانی بولی کہ میرا حساب کردو ۔  میں آج سے یہاں نہیں رہ سکتی ۔  پوچھا کیوں ؟ تو بولی کہ  اس نے  میرے چار سوالوں کے جواب  دے دیئے ہیں ۔ آج یہ گنتی بھی  گن دے گا ۔ اور تیری شادی پکی ہوگی ۔  پھر میرا یہاں  کیا کام ۔ ؟  رانی نے کہا ۔ دیکھتے ہیں۔    گنجے نے   دیکھا کہ  بڑے سٹول پر رانی براجمان ہے اور  اسکے بیٹھنے کیلئے چھوٹا اسٹول پڑا ہے ۔ اس نے اپنا  کھیس اور   چادر اتار کر   اسٹول پر رکھا ۔  یوں وہ  رانی  کے اسٹول سے اونچاہو  کر بیٹھا اور بولا ۔    مہا رانی  شروع کروں گنتی۔ ؟  رانی نے کہا ۔ دیکھو ۔ گنتی   آسان  نہیں ۔ اور میں چھتر مار مار کر  گنجے سر  میں سوراخ کردوں گی ۔ اس نے چیلنج قبول کیا۔  لیکن  پہلے خود سوال کیا ۔  کہ رانی صاحبہ  آپ نے لوگوں سے گنتی سننا شروع کر رکھی ہے   میرے ایک سوال کا جواب دیں  کہ   عقل کا مالک کون ہے ؟ رانی نے کہا کہ  یہ مشکل سوال ہے ۔    گنجا بولا  اگر 20 کی گنتی نہ  گنی جائے تو کتنے چھتر مارتی ہو ۔ بولی   20۔ گنجے نے کہا  20 میں سے 5 معاف کردو   تو ابھی بتاتا ہوں کہ   عقل کا مالک کون ہے ۔  رانی نے کہا   بیس  میں سے  5 چھتر معا ف کیے ۔  گنجا بولا ۔ عقل کا مالک غصہ ہے ۔ کسی بات پر جونہی غصہ آئے عقل سلب ہوجاتی ہے ۔  پھر انسان  موقع  محل نہیں دیکھتا اور غصے کی رومیں بہہ جاتا ہے ۔   انسان کے ہاتھوں انسان  قتل ہوجاتے ہیں سز ا بھگتنے کے بعد  جب  مجرم واپس آتا  ہے تو گھٹنے  جواب دے چکے  ہوتے  ہیں ۔ پھر عقل آتی  ہے ۔ انسان تب سوچتا ہے  کہ   برا کیا  اگر غصے کے وقت عقل کو قابو رکھتا تو آج  نوبت نہ آتی ۔  رانی بولی  گنجے بات تو ٹھیک ہے اب گنتی شروع کرو۔ گنجے نے جواب دیا کہ ٹھہرو  اب یہ  بتاؤ کہ شرم کیا چیز ہے  اور اسکا مالک   کون  ہے ۔ ؟ رانی  نے جواب دیا کہ شرم  کا مالک حیا ء  ہے ۔ گنجا  جھٹ سے بولا جواب غلط ہے ۔ رانی  بولی پھر آپ بتادو۔ گنجے نے کہا  پہلے  مزید  پانچ  چھتر معاف کرو۔  رانی  نے مزید پانچ  چھتر کم کردیئے ۔  گنجا بولا شرم اور حیاء  آپس میں بہن بھائی ہیں ۔   تم  نے  چھتر اور  بھی معاف کرنے ہیں ۔  ایسا کرو   میرے ساتھ چلو۔ رانی بولی ۔ نہیں پہلے بتاؤ ۔ شرم  کیا ہے ۔ ؟  گنجا بولا  شرم  کا مالک عشق ہے ۔ جب عشق ہوا تو شرم جاتی رہی ۔  پھر  دنیا  ک؟یا  ۔ رشتے دار کیا  انسان کو کچھ نظر نہیں آتا ۔   رانی بولی یہ بھی ٹھیک ہے ۔   اب   گنتی شروع کرو۔  گنجا بولا۔  ٹھہرو اب بتاؤ  کہ  پنجابی میں   ( اِ کے دا اِکا ،  جے گنجے  نے  کر دتادوکے تو تِکا  ۔ نہیں  تو رہ  جائیگا  اِکے دا اکا)  ترجمہ ۔  (ایک  کے اوپر ایک ۔  اگر  گنجے نے کردیا  دو سے تین   تو ٹھیک ورنہ   ایک ہی رہ جائے گا۔)۔ رانی  کو سمجھ نہ آئی تو گنجے نے کہا اسکا جواب بھی بتاتا ہوں پہلے  پانچ چھتر مزید  کم کرو۔ رانی نے مان لیا۔   گنجا بولا ۔ کہ  میں اگر تمہیں شادی کرکے  لے گیا تو  ۔  تم  میں اور میری ماں  تین ہوجائیں گے  ۔ اور اگر  میں ہار گیا تو  تم  راستے  میں  مجھے قتل کروا دو گی اور میری ماں گھر میں  اکیلی رہ جائے گی ۔ رانی نے  اعتراف کیا کہ ایسا ہوسکتا ہے ۔  لیکن اب    پانچ چھتر  باقی رہ گئے تھے ۔  گنجے نے سوچا کہ   پانچ چھتر اتنی بڑی سزا نہیں ہے ۔  چلو  گنتی شروع کرتے ہیں ۔   رانی بولی  ایک ۔  گنجے نے کہا ۔ ایک نام صرف رب کا۔ رانی نے کہا  دو۔ گنجا  بولا ۔  اللہ  نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا۔  جیسے مرد عورت ، دن رات  وغیرہ ۔   رانی بولی ۔ تین ۔  گنجے  نے جواب دیا ۔ تین قول مسلمانوں کے ۔  رانی بولی  چار۔  جواب آیا  چار یار نبی پاک ﷺ کے ۔  رانی بولی پانچ۔ گنجے   نے جواب  دیا ۔ پنجتن  پاک گھرانہ نبی پاک ﷺ کا ۔ نمازیں پانچ مسلمانوں کی ۔   رانی  بولی   چھ۔ گنجا  بولا ۔ چھے کلمے  اسلام کے ۔  جو ابھی کچھ دیر بعد تم پڑھو گی ۔  رانی بولی سات۔ گنجے نے جواب دیا ۔ سات دروازے جہنم کے ۔   رانی  بولی آٹھ ۔  گنجا بولا ۔ آٹھ  دروازے بہشت کے ۔  رانی     نے کہا  نو۔ گنجے نے کہا نو  نوراتا۔   دس دوسہرا۔  گیارہ  ۔گیارھویں والے پیر کا۔   بارہ مہینے  سال کے   ۔ تیرہ   تیر،تیرانداز کے ۔  چودہ طبق زمین آسمان  کے ۔  رانی بولی ۔ گنجے بھول جا۔   بولا۔ بھولوں کیسے  چھتر  پانچ باقی ہیں ۔  ڈر لگتا ہے ۔  رانی بولی ۔ پندرہ   ۔  گنجا بولا ۔ پندرہ صلاح    ہیں ۔   رانی بولی ۔ سولہ  ، گنجا بولا  سولہ کو کرشن مہاراج  کا جنم ہوا۔  رانی  بولی ۔ سترہ ۔ گنجا  بولا ۔ سترہ  رکعتیں نماز عشاء کی ۔  رانی   بولی  اٹھارہ  ۔ گنجے نے جواب دیا۔ اٹھارہ بیٹے حضرت علی  رضی اللہ  عنہ کے ۔   رانی بولی  انیس۔ گنجا بولا ۔  رانی  بس گنتی پوری  ہوگئی ۔  بولی کیسے ۔؟  انیسواں  میں اور بیسویں  تم  اور اکیسواں میرا ٹانگہ ۔  چل  اب تیری  گنتی پوری ہوئی ۔    گنتی پوری ہوئی اور ڈھول بجنے لگا۔  دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہوئی  اور گنجا  اور اپنے سُونے سے گھر میں خوبصورت دلہن بیاہ کر لے گیا۔

کہانی سننے کے بعد ہر ہفتے کھانا نہ کھانے کا بہانہ ہونے لگا۔   اور  درجنوں کہانیاں امی سے سنیں ۔   آج بھی کچھ لفظ بہ  لفظ یاد ہیں ۔  ان شاء اللہ   درجہ بہ درجہ  پہنچتی رہیں گی آپ سب تک ۔(عبدالرحمان گوندل)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں