کوئٹہ میں ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے انتخابات آج ہورہے ہیں رواں برس ہونے والے انتخابات گزشتہ سال کی نسبت کافی دلچسپ ہیں کیونکہ انتخابات سے پہلے جرنلسٹ پینل نے گروپ تشکیل دیتے وقت صحافت کے میدان سے پرانے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا بڑے عہدوں پر سینئر کے انتخاب پر جونئیر کھلاڑیوں نےمیدان میں آکر تبدیلی کے لئے قدم بڑھا دیا مگر نئی قیادت کے ساتھ پروگریسو پینل کے نام سے انتخابات میں حصہ لینے پر کیمرہ مینوں نے اس شرط پر ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ کیمرہ مینوں کو بھی بڑے عہدوں پر لڑنے کا موقع دیا جائے گا جسے پروگریسو پینل نے مانتے ہوئے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر کیمرہ مین کا نام شامل کرلیا،پروگریسو پینل میں 3 کیمرہ مینوں کو موقع دیا جارہا ہے جس کا ایک مقصد کیمرہ مینوں کے اتحاد کے باعث زیادہ سے زیادہ ووٹ کا حصول بھی ہے مگر نئی قیادت کے اس اقدام سےسئینر کھلاڑی تحفظات کا شکار نظر آئے چند سینئیر کھلاڑیوں نے تو اپنے ورکرو کو پیچھے نہ ہٹنے پر ان ڈائریکٹ دوران ڈیوٹی سخت رویے کی دھمکی بھی دے ڈالی مگر وہ اپنے اس حربے میں ناکام رہے نئی قیادت پورے جوش وجزبے سے آج میدان میں اتری ہوئی ہے بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے انتخابات کی دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ صدارت کی کرسی کے لئے سالابہنوئی آمنے سامنے ہیں سالا بہنوئی گزشتہ ادوار میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آتے رہے مگر اب کے انتخابات میں ایک دوسرے کے حریف بن کر میدان میں اترے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان ہونین آف جرنلسٹ کے انتخابات میں پروگریسو پینل میں آنے والی نئی قیادت اگر جیت جاتی ہے تو کیا وزیراعظم عمران خان کی طرح صرف تبدیلی کے نعروں تک ہی محدود رہے گی یا پھرجیت کی صورت میں واقع تبدیلی لے آئی گی۔۔
