تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،لوگوں کے معاشی حالات میں بہتری لانے کے حکومتی دعوے غلط نکلے، وفاقی ادارہ شماریات کے سماجی و معیارات زندگی سے متعلق سروے کے مطابق 38 فیصد گھرانوں نے معاشی حالات پہلے سے زیاد ہ ابتر،12 فیصد گھرانوں نے گھریلو معاشی حالات پہلے سے زیادہ اور 26 فیصد گھرانوں کے مطابق گھریلو معاشی حالات پہلے سے بد تر ہیں،13 فیصد گھرانوں نے معاشی حالات پہلے سے بہتر جبکہ صرف 2 فیصد گھرانوں نے معاشی حالات پہلے سے زیادہ بہتر قرار دیئے،ایک فیصد نے کہا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے،سروے کے مطابق 11 فیصد گھرانوں نے کمیونٹی کے معاشی حالات پہلے سے زیادہ بد تر،23فیصد کے مطابق کمیونٹی کی معاشی صورتحال پہلے سے بد تر ہوئی اور 48 فیصد کے خیال میں کمیونٹی کی معاشی صورتحال پہلے جیسی ہی ہے،11 فیصد کے مطابق علاقے کی معاشی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی،ایک فیصد کے مطابق کمیونٹی کی معاشی صورتحال پہلے سے بہت بہتر جبکہ 6 فیصد گھرانوں نے کہا کہ وہ کمیونٹی کی معاشی صورتحال کے بارے میں نہیں جانتے،سروے کے مطابق سندھ میں 29فیصد گھرانوں نے اپنے معاشی حالات کو پہلے سے زیادہ بدتر قرار دیا-دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا میں 27 فیصد اور پنجاب میں 25 فیصد کے مطابق گھریلو معاشی حالات پہلے سے بد تر ہیں۔ ہمارے ہاں آمدنی کم بتاؤ تو عزت نہیں کرتے زیادہ بتاؤ تو اُدھار مانگ لیتے ہیں نہ دو تو گالیاں دیتے ہیں۔بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔75 فیصد پاکستانیوں نے تازہ ترین سروے میں مہنگائی کو سب سے اہم مسئلہ قرار دے دیا جبکہ 70فیصد نے غربت کو پریشان کن کہا۔ 86فیصد پاکستانی روزگار کے محفوظ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی پر اعتماد نظرنہیں آئے۔اس بات کا انکشاف ریسرچ کمپنی کے کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس کی تازہ ترین سروے رپورٹ میں ہوا۔ جس میں ملک بھر سے ایک ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا۔ یہ سروے 02جون سے 06جون 2021 کے درمیان کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے اہم مسائل کے سوال پر پاکستانی عوام کی اکثریت یعنی 75فیصد نے مہنگائی کو سب سے اہم مسئلہ کہا۔جبکہ 70فیصد نے بیروزگاری کو اہم مسائل میں شمار کیا۔53فیصد نے غربت اور 38فیصد نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے جبکہ36 فیصد نے ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر تشویش کا اظہار کیا۔ اگست 2019ء سے بیروزگاری اور غربت پاکستانیوں کے اہم مسائل کی فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔سروے رپورٹ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ 2021ء کے آغاز سے روزگار کے غیر محفوظ ہونے پر بھی پاکستانیوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے اور ہر 10میں سے 8پاکستانی یعنی 86فیصد نے روزگار کے محفوظ ہونے کے بارے میں کم پرُاعتماد ہونے کا کہا۔ جبکہ 14 فیصد نے روزگار کے محفوظ ہونے پر اعتماد کا اظہار کیا۔کورونا کی وباء کے باعث ملازمت جانے کے سوال پر 54 فیصد پاکستانیوں نے اس سے انکار کیااور کہا کے ان کی یا کسی جاننے والے کی ملازمت کورونا کی وبا دوران نہیں گئی۔ لیکن 46فیصد پاکستانیوں نے خود کے یاکسی جاننے والے کی ملازمت کورونا کی وباء کے دوران جانے کا انکشاف کیا۔ اب کورونا کی بھی سن لیں۔۔سائنو فام لگانے والوں کو سعودیہ میں داخلے کی اجازت نہیں۔۔سائنو وک لگانے والوں کو یورپ میں داخلے کی اجازت نہیں۔۔اسٹرازنکا لگانے والے روس میں داخل نہیں ہوسکتے۔۔اسٹرا زینک فائزر لگانے والے چائنا نہیں جاسکتے۔ اب نیا ڈرامہ شروع ہوگیا ہے۔مالی منافع اور کمپنیوں کے جھگڑے نے دنیا تقسیم کردی ہے۔۔اور پاک وک لگانے والوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔۔ وہ شاید لاہور سے کراچی، ملتان سے گجرات، حیدرآباد سے فیصل آبادنہ جاسکیں۔۔ اور کراچی والے ملیر سے گلستان جوھر،گلشن سے کورنگی،اور بلدیہ سے صدر ہی جا سکیں۔۔۔ایک صاحب نے ویکسین انجکشن سے قبل نرس سے پوچھا، میڈم دو سال والی بات اگر سچی نکلی تو؟نرس بولی، بھائی ساری دنیا لگوا رہی ہے، آپ نے اکیلے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے ۔۔سندھ کے سابق سائیں کافرمان عالی شان ہے کہ۔۔ بے روزگار نوجوان جذباتی ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائیں، خودکشی تو ہرگز نہ کریں، بس دو سال انتظار کریں، سرکاری ملازمین نے ویکسین لگوالی ہے۔۔ دو نشئی دوپہر کے وقت ایک گھر کے پاس سے گزر رہے تھے۔ ایک نشئی دوسرے سے بولا۔۔یار گھر دھوپ میں جل رہا ہے اس کو چھاؤں میں لے چلیں۔۔دوسرا بولا، ٹھیک ہے۔۔وہ دونوں جوتے اتار کر گھر کو دھکا لگانے لگے۔۔اتنے میں ایک چور اس صورتحال کو دیکھ کر ان کے جوتے اٹھا کر لے گیا۔۔وہ دونوں پسینے میں شرابور دھکا لگانے میں مصروف رہے جب شام ہونے لگی تو پیچھے مڑ کر بولے،یار! اسی کافی دور آ گئے آں، ہن تے ساڈیاں جتیاں وی نظر نئیں آ رئیاں۔۔۔واقعہ کی دُم:مشکل وقت سے گزر چکے ہیں، اب اچھا وقت آرہا ہے۔۔۔بابا جی نے اپنی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے ایک خوبصورت اور جوان عمر مریدنی لا کر سوکن ڈال رکھی تھی!!معاشی حالات خراب ہوئے تو اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہا کہ ایک کو طلاق دے دیں!! کس کو دیں، یہ بہت ہی مشکل مرحلہ تھا!! ایک طرف عمر بھر کا ساتھ تھا تو دوسری طرف حُسن اور ثقافت کی معراج!!کسی پر ظلم نا ہو تو بابا جی نے امتحان لینے کا فیصلہ کیا!!بابا جی نے اپنی دونوں بیویوں کو دس دس ہزار روپے دیے اور دو ہفتوں کے لیے کہیں چلے گئے!!واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ ان کی پہلی بیوی نے دو ہفتوں میں اپنا گزارہ کر کے بھی پینتیس سو بچا رکھے تھے جبکہ جوان و حسین بیوی نے نا صرف دس ہزار خرچ کردیے تھے بلکہ اِدھر اُدھر سے لے کر خرچ کرنے کے لیے پانچ ہزار کا قرضہ بھی اُٹھا رکھا تھا!!بابا جی نے فیصلہ کیا کہ ان کی پہلی بیوی انتہائی کفایت شعار اور سلیقہ مند ہے، کسی نا کسی طرح اپنا گزارہ اور خرچہ چلا لے گی!! مگر یہ بیچاری نوجوان بیوی ان کے بغیر بھوکی مر جائے گی، اس لیے انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی!!واقعہ کی دُم:یہی بابا تحریک انصاف کی حکومت کو ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا فارمولا دیتا ہے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ دنیا میں خوش اور ٹینشن فری رہنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی رائے کو وہی اہمیت دیں جو آپ چائے کے اوپر جمی ’’بالائی‘‘ اور ڈبل روٹی کے سب سے پہلے ’’پیس‘‘ کو دیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔