علی عمران جونیئر
دوستو،نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ آگیا۔ وفاقی وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر سن کر قرآن پاک کی وہ سورة یادآگئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ۔۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔ اس سورة میں اللہ کریم نے زمانے کی قسم بھی کھا ئی ہے جس کے بعد انسان کے خسارے میں رہنے کا بتایا ہے۔ہم نے باباجی سے جب پوچھا بجٹ میں تعلیم ، صحت اورخوراک کیلئے وفاق نے کیا رکھا؟ تو باباجی نے مسکرا کر جواب دیا۔۔ تعلیم کیلئے وفاقی حکومت نے ”رب زدنی علما” ، خوراک کے لئے ” واللہ خیرالرزاقین” اور صحت کے لئے ” ھوالشافی، ھوالکافی” رکھا ہے۔۔بجٹ کے حوالے سے مختلف خبریں سوشل میڈیا پر دیکھ دیکھ کر ہمیں میراثی کا وہ لطیفہ یاد آگیا کہ۔۔ایک میراثی نے اپنی خواہش کا اظہار ایسے کیا کہ باسمتی چاول ہوں، دیسی گائے کا دودھ ہو، ولایتی کھنڈ ہو۔ بندہ کھیر پکائے اور سردیوں کی رات چھت پر رکھ کر سوجائے۔ صبح اٹھے تو انگلی لگا کر وہ کھیر کھائے۔کسی نے پوچھا۔ تمھارے پاس ان میں سے ہے کیا؟میراثی بولا۔۔ ”انگلی”۔۔ لطیفے کی دُم: وفاقی بجٹ میں مختلف شعبوں کیلئے رقم تو مختص کردی گئی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رقم موجود نہیں ہے۔
لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی فرماتے ہیں کہ۔۔سود اور سرطان کو بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی میں آدھے سے زیادہ بجٹ کی رقم چلی جائے گی۔۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ چھوٹا مرض دور کرنے کے لیے کوئی بڑا مرض کھڑا کردو۔ چنانچے مریض نزلے کی شکایت کرے تو دوا سے نمونیہ کے اسباب پیدا کر دو۔ پھر مریض نزلے کی شکایت نہیں کرے گا۔ ہومیو پیتھی کی کرے گا۔یہی حال بجٹ کا ہے یعنی اگر عوام مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں تو جنرل سیلز ٹیکس انیس سے بڑھا کر بیس فیصد کردو، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھا دو، درآمدی ٹیکس میں اضافہ کردو۔ تنخواہ دار طبقے پر اتنا ٹیکس لاد و کہ اس کی کمر ہی ٹوٹ جائے۔۔
بہت ہی امیر کبیر ٹھیکیدار کوا سٹیج کی نئی اور بہت خوبصورت اداکارہ سے محبت ہوگئی۔۔دوچار بار وہ اسکے ساتھ کسی آرٹ فلم پہ بات چیت کرنے کے بہانے ڈنر پہ گیا۔دراصل وہ اس سے شادی کا خواہاں تھا مگر اس کے ماضی کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا جسکے لیے اس نے پرائیویٹ سراغ رساں کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔۔دس دن بعد رپورٹ اسکے میز پہ تھی۔۔۔۔آرٹسٹ اچھے گھرانے کی پڑھی لکھی باکردار لڑکی ہے، ساتھی اداکار اسکی بہت عزت کرتے ہیں، آج تک اسکا کوئی اسکینڈل نہیں بنا،البتہ آجکل وہ کسی بدنام زمانہ ٹھیکیدار کے ساتھ دیکھی جارہی ہے۔واقعہ کی دُم: امیر کبیر ٹھیکیدار کو آپ فارم سینتالیس والی حکومت سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔۔جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگیں تو سمجھ لو کہ شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور ہے۔۔سچ تو یہ ہے کہ حکومتوں کے علاوہ کوئی بھی اپنی موجودہ ترقی سے مطمئن نہیں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگرٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگرٹ نوشی سے ہوئے تھے۔اسی طرح اگر حکومت غور کرے تو وہ مسائل سامنے آسکتے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا دور دورہ ہے اور طبقہ اشرافیہ کی عیاشیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔
ایک سابق وزیرخزانہ اپنے بچپن کی دنوں کے حوالے سے خوشگوار یادیں شیئر کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ ۔۔وہ دن آج بھی یاد ہے جب میں نے گھر والوں کو آٹھویں کلاس کی مارک شیٹ دکھائی تھی جس میں میتھ میں مجھے 100 میں سے 90 نمبر ملے تھے،گھر والوں نے یہ بول کر اتنا” کوٹا ”تھا کہ یہ کب سے اتنا سمجھ دار ہوگیا،اسے تو صرف 9 نمبر ملے ہوں گے، اس نے نو کے آگے زیرو بڑھا کر اسے نوے بنا دیئے ہوں گے۔۔،میں نے قسم کھائی میں نے زیرو نہیں بڑھایا،مگر گھر والوں نے کچھ نہیں سنا اور جم کر دھلائی کی۔آج بھی اتنے سالوں بعد کہوں گا کہ میں نے زیرو نہیں بڑھایا تھا،میں نے تو صرف ”9 ” بڑھایا تھا۔ بجٹ تقریر سن کر تاجروں، صنعتکاروں، دکانداروں اور عوام کی اکثریت کو ڈپریشن کا دورہ پڑا ہوگا۔۔ ڈاکٹر نے مریض سے پوچھا کہ جب آپ پر ڈپریشن کا دورہ پڑتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟مریض نے جواب دیا کہ۔۔ نزدیکی مسجد میں چلا جاتا ہوں۔۔ڈاکٹر نے مریض کی بات سن کر کہا۔۔ بہت اچھی بات ہے، تو پھر آپ نوافل وغیرہ پڑھتے ہوں گے!کیوں کہ عبادت کرنے سے ڈپریشن اور ٹینشن ختم ہوجاتی ہے۔ مریض نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔ نہیں نہیں، میں تمام نمازیوں کی جوتیاں آپس میں ملا دیتا ہوں اور جب نماز کے بعد تمام نمازی پریشان ہوتے ہیں تو خوب انجوائے کرتا ہوں اور میرا ڈپریشن کا وقت اچھا گزر جاتا ہے۔
بجلی کے نرخ آئے روز بڑھا دیئے جاتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ جنوری کا بل جو کہ بھرچکے ہیں، مئی اور جون کے بلوں میں لکھا آتا ہے کہ جنوری کے بل کا فیول ایڈجسٹمنٹ بھی بھرنا ہے۔ بجلی دیتے نہیں، بل ہے کہ ہر ماہ پہلے سے زیادہ آتا ہے۔ ۔جو لوگ سولر لگا کر بجلی کے بلوں سے نجات حاصل کرنا چاہ رہے تھے اب انہیں فکسڈ ٹیکس کے جال میں گھیرا جارہا ہے۔ ۔ امریکا میں جب لائٹ چلی جاتی ہے تو امریکی پاور ہاؤس کال کرتے ہیں، جاپان میں لائٹ جائے تو جاپانی سب سے پہلے فیوز چیک کرتے ہیں اور پاکستانی گلی میں جھانک کر کہتا ہے۔۔ ہاں یار، سب کی گئی ہے۔۔جب کسی بچے سے اس کے ٹیچر نے سوال کیا کہ بجلی کہاں بنتی ہے تو بچے نے جھٹ سے کہا، ہمارے ماموں کے گھر۔۔ٹیچر نے حیرت سے پوچھا ، وہ کیسے؟ بچہ کہنے لگا۔۔ جب بھی ہماری بجلی جاتی ہے تو ہمارے ابا کہتے ہیں۔۔ سالے پھر بجلی لے گئے۔ ابا کے سالے ہمارے ماموں ہوتے ہیں ناں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی امریکہ سے شکست پر سینیٹر محسن نقوی کا وزیرداخلہ محسن نقوی سے نوٹس لینے کا مطالبہ، مطالبے کے بعد وزیرداخلہ محسن نقوی کا چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو فون، سخت برہمی کا اظہار، وہ فون پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی پر برس پڑے۔۔ خوش رہیںا ور خوشیاں بانٹیں۔۔