علی عمران جونیئر
دوستو،کہتے ہیں کہ ایک بار پاک ٹی ہاؤس میں حبیب جالب صاحب بڑے پریشان سے انداز میں داخل ہوئے ، وہاں فیض احمد فیض اور دیگر ادبی شخصیات براجمان تھیں، حبیب جالب نے ایک کرسی گھسیٹی اور اس پر تشریف رکھتے ہوئے گرج دار آواز میں بولے۔ آپ سب کے لئے ایک بری خبر ہے۔ حاضرین نے حیران ہوکر بری خبر سے متعلق دریافت کیاتو حبیب جالب بولے۔یہ ملک اب نہیں چل سکتا۔ یہ سنتے ہی فیض احمد فیض کہنے لگے۔ تمہارے لیے اس سے بھی بری خبر ہے میرے پاس۔اب حیران ہونے کی باری حبیب جالب کی تھی، انہوں نے دریافت کیا ، کیسی بری خبر؟ فیض احمد فیض بولے۔یہ ملک اسی طرح چلے گا۔تو احباب فیض احمد فیض نے کئی عشرے پہلے جو فرمایا تھا، ویسا ہی ہورہا ہے۔ آپ لوگوں کو قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ملک ایسے ہی چلے گا۔
ایک بار منیر نیازی صاحب نے بتایا کہ ان کی اس سے زیادہ بے عزتی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ہوا یوں کہ وہ ایک تانگے میں سوار ہوئے، اس تانگے کی ایک اور تانگے والے سے ٹھن گئی، اب دونوں تانگے نہایت خطرناک انداز میں بھاگنے لگے ۔منیر نیازی اور دیگر سواریوں نے گھبرا کر شور مچادیا کہ تانگے کی رفتار کم کرو، جب اصرار بڑھا تو کوچوان نے مقابل کوچوان کو یہ کہتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لیں کہ پْتر جے میریاں سواریاں بے غیرت نہ ہوندیاں تے تینوں دسدا(بیٹا، اگر میری سواریاں بے غیرت نہ ہوتیں تو پھر بتاتا )۔ایک بندہ اپنے گھر کی پریشانیوں کے حل کے لیے ایک بابا جی کے پاس گیا۔باباجی نے اس سے کہا کل اپنے گھر کی مٹّی لانا۔اگلے دن بابا جی نے اُس کی لائی ہوئی مٹّی پر کُچھ پڑھ کر پھونکا اور بولے سن سکو گے تو بتاؤ ں؟؟ وہ بندہ کہنے لگا۔بالکل بتائیں باباجی، میں آپ کی بات نہ صرف غور سے سنوں گا بلکہ اسے اہمیت بھی دوں گا۔ باباجی کہنے لگے تو سنو تمہاری بیٹی کا اسکول میں چکّر چل رہا اور تمہارے بیٹے غلط راستے پر نکل گئے ہیں اور خاص بات تمہاری بیوی تمہیں دھوکا دے رہی ہے ،اس کا چکّر تمہارے پڑوسی کے ساتھ چل رہا ہے۔۔بندہ باباجی کی یہ بات سن کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ باباجی کو حیرت ہوئی کہ شاید وہ اپنے گھر کی سچائی سن کر اچانک پاگل ہوگیا ہے۔باباجی نے اس بندے سے کہا۔ ہنس کیوں رہے ہو؟؟وہ بولا، بابا جی اگر ہنسنے کی وجہ بتاؤ تو آپ سن لوگے؟؟ باباجی کو حیرت کا جھٹکا لگا، کہنے لگے۔ ہاں ضرور سن لوں گا۔وہ بندہ بولا۔ میں گھر سے مٹی لانا بھول گیا تھاتو میں نے آپ کے گھر کے آنگن سے ہی مٹی اٹھائی اور آپ کی خدمت میں پیش کی تھی۔
ہمارے پیارے دوست نے کل ایک عجیب و غریب قصہ سنایا، کہنے لگا۔دوستوکے ساتھ کینٹین پر بیٹھا تھا، سموسے کھانے کے بعد اپنے لیے ایک پیپسی منگوالی۔ابھی ویٹر نے پیپسی لاکر ٹیبل پر رکھی ہی تھی ،ساتھ ہی ایک بزرگ فقیر بھی آن وارد ہوا،دس روپے کا سوال کردیا۔میں نے جیب سے پرس نکالا اور فقیر کو دس روپے دیے۔ دس روپے وصول کرتے ہوئے فقیر نے کہا۔ میرا پتر یہ بوتل بہت خطرناک ہوتی ہے۔ جیسے ہی حلق سے اترتی ہے، معدے اور گردوں کی تباہی شروع کردیتی ہے۔بابا جی کی محبت بھری طبیعت کو دیکھتے ہوئے ہم نے کہا۔ بیٹھ جائیں بابا جی کچھ کھا پی لیں۔باباجی نے قریب رکھی کرسی گھسیٹی، اپنا بڑا سا تھیلا ٹیبل کے نیچے رکھا، ہماری طرف دیکھتے ہوئے بولے۔پتر کالی بوتل ای منگوا دے۔یہ سن کر میرا تو قہقہہ نکل گیا لیکن میرے وہاں موجود دوست ایسے خاموش ہوگئے جیسے پی ڈی ایم کے سپورٹرز مہنگائی پر خاموش ہیں، بالکل اس چھوٹے بچے کی طرح جو ”چڈی” میں ” کارروائی ” ڈالنے کے بعد خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ایک پیر صاحب اپنی کرامت کا ذکر کر رہے تھے کہ میں صحرا میں جا رہا تھا چلتے چلتے دو دن گزر گئے تھے۔ بھوک لگتی تو ہاتھ بڑھا کر اڑتا ہوا کوئی پرندہ پکڑ لیتا اور سورج کی روشنی پر بھون کر کھاتا۔ خدا کا شکر ادا کر کے آگے چل پڑتا۔ تیسرے دن مجھے نماز کا خیال آیا تو پانی ختم ہو چکا تھا۔ میں نے ایک جھاڑی دیکھی اس کے پاس جا کر زمین سے مٹھی بھر ریت اٹھائی تو اس کے نیچے سے پانی کا چشمہ نکل آیا۔ میں پینے لگا تو خیال آیا کہ یہ جھاڑی پیاسی ہے پہلے اسے پانی پلاوں۔ چلو بھر پانی اس کی جڑ میں ڈالا تو وہ درخت بن گئی۔ اس کے سائے میں نماز ادا کرنے کا سوچا، وضو کے لیے چلو میں پانی لیکر کلی کی تو جہاں جہاں پانی گرا، گلاب کے پھول کھل گئے۔ چہرے پر پانی ڈالا تو پانی کے قطرے زمین پر گرنے کے بجائے ہر قطرہ ایک لال رنگ کا طوطا بن کر درخت کی ٹہنی پر بیٹھ گیا اور میرے مریدوں کے لیے دعا کرنے لگا۔ مرید جو جھوم جھوم کر سن رہے تھے ان میں سے ایک بولا پیر صاحب لال رنگ کا طوطا۔پیر صاحب نے غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھا تو ساتھ بیٹھے بندے نے جو پیر صاحب کا مرید خاص تھا، چیخ کر بولا۔ چپ کر! اوئے یہاں باقی کام بڑا سائنس کے اصول کے مطابق ہو رہا ہے جو تجھے طوطے پر شک ہے۔
اگست کے پہلے عشرے میں اسمبلیاں تحلیل ہورہی ہیں۔ الیکشن کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ پی ڈی ایم کا ٹولہ یہ تیاری کس انداز سے کررہا ہے، اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگا لیں۔ایک زمیندار نے مقدمے میں وکیل کیا۔تاریخ پر گیا تو عدالت کے باہر وکیل صاحب زمیندار کو ایک کونے میں لے گئے اور پوچھا ۔میں نے کہا تھا مخالف پارٹی کے گواہ توڑنے ہیں کیا بنا؟زمیندار نے کہا۔ ان سے طے ہو گیا ہے کہ وہ گواہی نہیں دیں گے،وکیل نے اگلا سوال کیا، تفتیشی کو بھی کچھ لگایا کہ نہیں؟زمیندار بولا جی کل ہی تھانے میں خدمت کر کے ضمنیاں اپنے حق میں لکھوا لی تھیں۔وکیل نے پھر پوچھا۔ مخالف پارٹی کے وکیل اور سرکاری وکیل کا بھی کچھ کیا یا نہیں؟زمیندار کہنے لگا۔ فکر نہ کریں وکیل صاحب، وہ ایک لفظ نہیں بولیں گے عدالت میں۔وکیل نے پھر سوال داغا اور جج صاحب سے رابطہ نکالنا تھا، اس کا کیا ہوا؟زمیندار بولا۔جی ان کے سالے کے گھر ان سے ملاقات ہو گئی تھی، انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔وکیل یہ سن کر مسکرایا اور مونچھوں کو تاؤ دے کر کہنے لگا۔ شاباش۔ ویری گڈ۔ بس اب تم میرا کمال دیکھنا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔صالحین کے زمانے میں عورتیں اس نیت سے بچّوں کو اپنا دودھ پلاتی تھیں کہ بڑا ہو کر اسلام کا شہسوار، دین کا داعی اور بڑے مر تبے والا بنے گااور اس طرح ہمارے قبیلوں اور اسلاف میں عظیم شخصیتیں بنیں۔لیکن آج عورتیں اپنے بچوں کو اس نیت سے دودھ پلاتی ہیں کہ بچّہ سو جائے۔ اسی لئے امت سو رہی ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
بس ایویں
Facebook Comments