تحریر: سعداللہ جان برق
ایک پرانے لطیفے کے مطابق ۔ اخبار کے ایڈیٹر نے نو آموز رپورٹر کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ، خبر یہ نہیں کہ کتے نے انسان کو کاٹ لیا، بلکہ یہ ہے کہ انسان نے کتے کو کاٹ لیا۔ لیکن یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب صرف ’’کتے‘‘ کا ٹا کرتے تھے اور انسان ’’کاٹا‘‘ نہیں کرتے تھے لیکن موجودہ حالات میں کوئی تجربہ کار ایڈیٹر نو آموز رپورٹر کو کونسی مثال دے کر سمجھائے گا؟ اس بات نے ہمیں آج کل پریشان کیا ہوا ہے کہ آج کل ’’کس نے‘‘ ’’کس کو کاٹا‘‘ کی خبر بن سکتی ہے کیونکہ بات کتے جیسے چھوٹے سائز کے جانور سے اس بڑے سائز کے جانور تک پہنچ چکی ہے۔ جس کے سینگ تو نہیں ہوتے لیکن جسم ہوتا ہے۔
اور بات ’’کاٹنے‘‘ سے گزر کر ’’کاٹ کھانے‘‘ تک پہنچی ہے تو اب بچارا نو آموز رپورٹر کیا ’’خبر‘‘ لائے گا اور کہاں سے لائے گا؟ جب کہ کوئی بھی خبر اب خبر نہیں رہی ہے، بچارے ٹی وی والوں کی تو اب عادت سی ہو گئی ہے کہ ہر بات پر بریکنگ نیوز کا فیتہ چلا دیتے ہیں۔ مثلاً اس بات کو آخر آپ کس اینگل سے خبر یا بریکنگ نیوز کہہ سکتے ہیں کہ قبائلی ممبران اسمبلی یا سینیٹرز نے وزیر اعظم سے مل کر اپنے ’’مکمل‘‘ اور پر خلوص‘‘ تعاون کا یقین دلایا یا فلاں آزاد امیدوار اپنے بوریا بستر سمیت سرکاری پارٹی میں شامل ہو گیا۔ اگر یہ خبر ہے تو کل کو تو یہ بریکنگ نیوز بھی آسکتی ہے کہ آج سورج حیرت انگیز طور پر مشرق سے نکلا اور پھر غروب بھی مشرق کے بجائے مغرب میں ہوگیا۔
ہم چونکہ پرانے گناہگار یعنی صحافت کی گلیوں میں خوب خوب کھینچے گئے ہیں اس لیے اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ نو آموز صحافیوں کی تھوڑی رہنمائی کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔ مثلاً کل کلاں کو ہو سکتا ہے کہ ڈیموں کے لیے چندے کی رقم میں گھپلے کی خبر آجائے اور آپ اسے بریکنگ نیوز سمجھ کر لگا دیں لیکن آپ کی شدید غلطی ہو گی کہ نہ تو چندہ کوئی خبر ہے اور نہ گھپلا ۔ اب اصل راز کی بات بلکہ ٹیکنیکی بات آپ کو بتا رہے ہیں اگر کوئی نئی خبر یا بریکنگ نیوز ہی دینی ہے تو کسی بھی معاملے کو لے کر سرخی جما دیجیے کہ فلاں محکمے فلاں دفتر یا فلاں ادارے میں گھپلا نہیں ہو رہا ہے۔
یقین کریں نہ صرف یہ ایک زبردست بریکنگ نیوز ہو گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی اس خبر پر لوگ اس محکمے ادارے یا دفتر کو دیکھنے کے لیے دوڑ پڑیں اور انتظامیہ کو دیکھنے کے لیے ٹکٹ لگانا پڑے۔ ایک اور بریکنگ نیوز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فلاں لیڈر کے منہ سے فلاں مقام پر ’’سچ‘‘ نکل گیا۔ دوسرے دن آپ دیکھیں گے کہ اس لیڈر کے بنگلے پر لوگوں کا اژدہام ہو گا اور اس کے نوکر لوگوں کو سمجھا رہے ہوں گے کہ صاحب اسلام آباد گیا ہوا ہے یا اپنے منہ کا علاج کرنے امریکا چلے گئے ہیں یا الیکشن کمیشن نے اس کو ’’جواب‘‘ کے لیے طلب کیا ہے۔
ایک ایسی خبر بھی ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں جو آپ کسی بھی سے منسوب کرکے ہر وقت چھاپ سکتے ہیں کہ ہم نے کرپشن کو ختم کر دیا ہے یا اس ملک سے کرپشن ختم کرکے دم لیں گے۔یہ ایک ایسی خبر ہے جس کی نہ تو کوئی تصدیق کر سکتا ہےنہ تردید۔ کیونکہ۔ چلیے ایک کہانی سن لیجیے۔۔
ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کا سنہرا زمانہ تھا بنوں میں ایک ایم پی اے نے اپنے حلقے کے بی ڈی ممبروں کو بلوا کر ایک جلسے کا انعقاد کیا ہوا تھا۔ ہم بھی راستہ گزرتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گے۔ ایم پی اے موصوف تقریر کرتے ہوئے کہہ رہا تھا لوگ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں کہ میں نے ووٹ خریدے ہیں آپ سب یہاں بیٹھے ہیں بتائیے میں نے آپ میں سے کسی کا ووٹ خریدا ہے؟ اگر کوئی ایک شخص بھی کہہ دے کہ میں نے اسے ووٹ خریدا ہے تو میں اسی وقت اسی جگہ آج اور ابھی استعفا دینے کو تیار ہوں لیکن کسی ایک ممبر نے بھی نہیں کہا کہ۔میرا ووٹ تم نے خریدا ہے۔ کرپشن کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے اس کے بارے میں آپ کچھ بھی چھاپ دیجیے اس کی تصدیق یا تردید ممکن نہیں ہوتی اس لیے چند روز بعد آپ مختلف وزیروں وغیرہ کے نام سے خبریں دینا شروع کردیجیے کہ ہم نے کرپشن کا نام ونشان مٹا دیا ہے یا مٹانے ہی والے ہیں۔اب بچاری کرپشن اتنی بھی تو پاگل نہیں کہ آئے اورکہے کہ میں ہوں یا نہیں ہوں۔
ایک اورملٹی پرپز چیز ’’پہلی ترجیح‘‘ ہے آپ کسی بھی بات کو کسی کے ساتھ بھی نتھی کر کے ’’پہلی ‘‘ ’’ترجیح‘‘ کے مرتبے پر فائز کر سکتے ہیں ۔مثلاً آنے والے وقتوں کے لیے کم از کم ڈیڑھ دو سو پہلی ترجیحات تو ہمارے پاس ہیں۔ پہلی ترجیح تبدیلی ہے، پہلی ترجیح نیا پاکستان ہے۔ پہلی ترجیح عوام کو بنیادی حقوق یا سہولتیں دینا ہے۔یہ حقوق اور سہولتوں کا پیٹ بھی بہت بڑا ہے آپ اس میں کچھ بھی ڈال سکتے ہیں۔ مثلاً اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ آج تک جو بھی حکومت آئی اور اس نے جتنے بھی وزیر پالے ہیں ان سب نے ’’عوام‘‘ کو سانس لینے کے لیے مفت ہوا کی بنیادی سہولت دی ہوئی تھوڑی سی گندی ضرور ہوگی لیکن بنیادی سہولت تو ہے اور وہ بھی بالکل مفت۔
جہاں تک اس کرپشن کا تعلق ہے تو آپ کسی بھی محکمے پر تہمت لگا سکتے ہیں کہ اس میں کرپشن بالکل ختم ہو گئی ہے۔ محکمہ تعلیم پر بے شک یہ الزام لگا دیں کہ وہاں تعلیم بھی دی جاتی یا اسپتالوں میں صحت کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ امن و امان کے مثالی ہونے کی خبریں بھی آپ ھمہ وقت دے سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ نو آموز رپورٹر صرف یہ ٹکنیک اپنا لیں کہ جو نہیں ہوتا اسے ’’ہوتا‘‘ بیان کریں اور جو ہوتا ہے اس کی کبھی خبر نہ دیں، بس اتنا سا ہی کام ہے۔رواں وقت اور آنے والے وقت میں دھیان رکھیے کہ کوئی بھی عام خبر نہ دیا کریں کہ فلاں لیڈر نے حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے یا فلاں نے بھی فلاں پارٹی کو ملکی مفاداور عوام کے وسیع تر بہبود کے لیے جوائن کرلیا۔ اور حکومت کے ساتھ قبائلی ممبران کی طرح شانہ بشانہ ہو کر ہمت کی کمر باندھ لی ہے۔ وہ تو گھر سے نکلے ہی کمر باندھے ہوئے ہوتے ہیں ہاں اگر کسی نے کمر کھولی ہو تو یہ بہت بڑی خبر اور بریکنگ نیوز ہے۔۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔