sach ya kahani farz kahani

بریکنگ کی ریس،صحافت کا جنازہ

تحریر: سید بدرسعید

ایک اسٹیج اداکار نے صحافت کا جنازہ پڑھا دیا۔۔صحافت کا جنازہ اٹھ رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں تھا لیکن واٹس ایپ اور سوشل میڈیائی افواہوں کی بنیاد پر جس قسم کی رپورٹنگ شروع ہو گئی اس پر حیرت ہوتی ہے ۔ چند پیراشوٹرز یقینا ہمارے سینئر رپورٹرز کی کریڈیبلٹی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے لیکن سچ یہ ہے کہ بدنامی پوری کمیونٹی کی ہوتی ہے ۔ ایک بار پھر احساس ہوتا ہے کہ تحقیقاتی صحافت کی تربیت کا فقدان ایک بڑا خلا پیدا کر رہا ہے ۔ صحافت کو کمزور کرنے کی وجہ خود اسی فیلڈ کے وہ لوگ بن رہے ہیں جو نہ تو سینئرز سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ انہیں اہمیت دیتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کی اکثریت بھی شاید عملی صحافت پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی ۔
اگلے روز ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پولیس کی وردی میں ایک صاحب اور شوخ لباس میں ایک محترمہ ڈانس میں مشغول تھے ۔ ہمارے ایک چینل نے اس پر پیکج بنا دیا ۔ چینل کے “چیف کرائم رپورٹر” صاحب لائن پر آئے اور انہوں نے فرمایا یہ لاہور کے ایک ایس ایچ او ہیں جن کی ویڈیو ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے اخلاقیات پر بھی بھاشن دیا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ لاہور میں تو کم از کم کوئی انسپکٹر یا ایس ایچ او پرانی وردی نہیں پہنتا ۔ یا تو یہ ویڈیو پرانی ہے یا پھر چیف کرائم رپورٹر کو لاہور کی پولیسنگ کا علم نہیں ۔ میں نے اس بارے میں تحقیقات کیں تو ایک نئی کہانی سامنے آ گئی ۔ اس وقت تک ہمارے کچھ دیگر صحافی دوست بھی ایکشن میں آ گئے اور “انسپکٹر کی گرل فرینڈ” کے ساتھ ڈانس کی ویڈیو وائرل ہونے کی خبریں اپ لوڈ کرنے لگے ۔
سر! یہ اسٹیج اداکارہ خوبصورت کیف اور اسٹیج اداکار شہزاد عاصی ہے ۔ میری شہزاد عاصی سے بات ہوئی ہے اس نے مجھے وضاحتی ویڈیو بھی بنا کر بھیج دی ہے ۔ شہزاد عاصی اوکاڑہ کا اداکار ہے اور لگ بھگ 20 برس سے اسی فیلڈ میں ہے ۔ یہ دونوں جس پروڈیوسر کے ڈرامے میں کام کر رہے ہیں اس کا نام کاشف بٹ ہے ۔ شہزاد عاصی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ڈرامے کی ریہسل کر رہے تھے جس کا کلپ بنا کر اپ لوڈ کر دیا گیا ۔
میرے پیارے دوستو! تحقیقاتی صحافت اتنی بھی مشکل نہیں ہے ۔ یہ تو خیر تحقیقاتی صحافت بھی نہیں تھی کہ کنفرمیشن ہر خبر کا بنیادی اصول ہے ۔ مجھے اس کہانی کو تلاش کرنے میں بہت زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی ۔ میں نے صرف چند سوالات حل کئے اور چینلز کی بریکنگ نیوز کو بائونس کر دیا ۔ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ویڈیو میں نظر آنے والا “انسپکٹر” لاہور کا ہے ؟ اگر وہ لاہور کا ہے تو یہ ویڈیو پرانی ہے ؟ کیونکہ وردی پرانی تھی ۔ میں نے لاہور میں ایس ایچ او رہنے والے کچھ انسپکٹر دوستوں سے رابطہ کیا ۔ ان میں سے کسی نے اس فنکار کو بطور انسپکٹر شناخت نہ کیا ۔ وہ اسے نہیں جانتے تھے اور کبھی فیلڈ میں نہیں ملے تھے ۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر یہ لاہور کا انسپکٹر نہیں تو کس علاقے کا ہے ۔ میں نے پنجاب کے دیگر پولیس افسران سے رابطہ کیا ۔ ان میں سے بھی کوئی اسے نہیں جانتا تھا ۔ میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ڈانسر لڑکی کون ہے ۔ معلوم ہوا کہ ڈانسر لڑکی کا نام خوبصورت کیف ہے اور ساتھ اداکار شہزاد عاصی ہے ۔ میں نے شوبز رپورٹرز سے رابطہ کیا ۔ انہوں نے تصدیق کر دی کہ ڈانسر کا نام اداکارہ کیف ہے ۔ ایک دو دوستوں نے اداکارہ کیف کا نمبر بھیج دیا ۔ ایک دو دوستوں نے شہزاد عاصی کی تصدیق کر دی ۔ پھر اس کا نمبر بھی مل گیا ۔ مین نے سوشل میڈیا پر ان کے پیجز چیک کئے ۔ اداکارہ کیف نے یہ ویڈیو اپ لوڈ کر رکھی ہے ۔ میں نے اداکارہ اور اداکار سے رابطہ کیا ۔ دونوں نے تصدیق کر دی کہ ویڈیو ان کی ہے ۔ اور ہمارے چینلز کی بڑی بریکنگ نیوز بائونس ہو گئی ۔ اب اداکارہ کیف کے چاہنے والوں کے لئے ایک اور بڑی خبر یہ بچی ہے کہ اداکارہ کیف دراصل شی میل ہے لیکن اس کی عزت اس لئے زیادہ ہے کہ وہ اپنا کام بہتر انداز میں کرنا جانتی ہے (سید بدر سعید)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں