maslon ka masla

براوو پاکستانی میڈیا۔۔۔

تحریر: خرم علی راؤ

جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، سچائی ہمیشہ اپنے آپ کو منوا لیتی ہے، یہ وہ باتیں ہیں جنھیں عالمی صداقت کا درجہ حاصل ہے لیکن جناب ایک مکتبہ فکر ایک زاویہ نظر وعمل اس کے بالکل برخلاف بھی ہے جس پر اس تحریر میں کچھ بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مہا گرو مہاراج چانکیہ جی یا جسے کوٹلیا اور وشنوگپتا بھی کہا جاتا ہے کا نام تو سنا ہوگا، یہ مہاشے ہزاروں سال پہلے ایک بادشاہ چندرگپت موریہ کے شاہی مشیر اور اتالیق تھے، یہ بندہ راج نیتی یا سیاست کا مہاگرو تھا اور اس شعبے کے بڑے گر جانتا تھا اس نے ’’ارتھ شاستر‘‘ نامی ایک کتاب بھی حکمرانی کے گر اپنے شاگرد راجا چندرگپت موریہ کو سکھانے اور بتانے کے لیے لکھی تھی، اسے یعنی اس کتاب ارتھ شاسترکوآپ ہندوستانی اور ہندو سیاست اور حکومت کی بائبل بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہ آج تک مؤثر شدہ اور زیر عمل ہے، اس کتاب میں اس نے اقتدارکو دوام بخشنے کے بیشمار منفی اصول ، حربے اور حیلے درج کیے اور انھی میں سے حکمرانی کے اصولوں کا ذکرکرتے ہوئے دو بہت عجیب اصول بیان کیے، ایک یہ کہ جیتنے کے لیے جو چاہو اچھا برا ، جائز ناجائز سب کرگزروکیونکہ کامیابی سے بڑھ کر کچھ نہیں، شاید اسی کو انگریزی زبان میں ان محاوروں کی شکل دی گئی کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے یا فتح ہر قیمت پر، بہرحال اور دوسرا اصول یہ تھا کہ اتنا زیادہ جھوٹ بولو اور باربار بولو کہ لوگ آخرکار سچ سمجھنے لگیں، ہٹلرکا وزیر اطلاعات گوئبلز بھی اس قول کا بڑا قائل کہا جاتا تھا اور بالکل یہی بات اس نے بھی بیسویں صدی میں نہ صرف دہرائی بلکہ زبردست طریقے سے اسے عمل میں بھی لایا۔

آپ ہندوستان کی تاریخ پڑھ لیں ، ان کے راجاؤں مہاراجاؤں،ان کے حکمرانوں کے حالات دیکھیں ، سب کے سب چانکیائی اصولوں کے ہی پیروکار نظر آتے ہیں ، ظلم، جھوٹ بولنا ، فریب دینا ، دھوکہ دہی ، عہد شکنی کو ہندو راج نیتی میں خامی نہیں بلکہ خوبی سمجھا جاتا ہے، شاید اسی لیے بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والا محاورہ وجود میں آیا اور آج بھی ہندو راج نیتی حکمرانی یا ران نیتی کے انھی منفی طریقوں پر گھوم رہی، عمل کر رہی اور چل رہی ہے اور اس دورجدید میں ان چانکیائی اصولوں کا سب سے بڑا مظہر ہے بڑ بولا انڈین میڈیا، چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا دونوں ہی چانکیہ کے اصول کے مطابق جھوٹ، جھوٹ اور صرف جھوٹ کے پرچار میں ایسے منہمک نظر آتے ہیں کہ سچ دور کہیں دبا، کچلا بلکتا اور سسکتا نظر آتا ہے جس کا بھرپور مظاہرہ پلوامہ حملے کے بعد اور پھر حالیہ تین روزہ پاک بھارت جنگ میں پاکستانی عوام کو بذریعہ سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ دیکھنے کو ملا۔

جھوٹے دعوؤں اور جھوٹی باتوں کی ایک مستقل برسات سی ہو رہی تھی انڈین چینلز پر، اکا دکا چینل یا اینکرکو چھوڑ کر سب کے سب سر تا پا بس جھوٹ میں غرق اور لت پت نظر آرہے تھے، بقول شخصے آپ کسی ایک کو بہت دیر تک بیوقوف بنا سکتے ہیں۔بہت ساروں کوکچھ دیر تک لیکن ساروں کو بہت دیر تک نہیں بنا سکتے مگر انڈین میڈیا اس انہونی کو ہونی بنانے میں جٹا ہوا تھا ۔ دراصل پاکستان دشمنی اور پاکستان پر بے سر و پا الزام دھرنا ایک ایسا چورن ہے جو ہمیشہ انڈیا میں بہت اچھے داموں بکا کرتا ہے اور لکشمی دیوی کے پجاری ہر سطح پر مفادات کے حصول کے لیے اس چورن کی دلالی میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن سیاسی ، فلمی اور میڈیائی سطح پر اس کو زیادہ ہی بیچا جاتا ہے۔ آمد بر سر مطلب ، پچھلے دنوں ایک طوفان ِ بد تمیزی تھا جو انڈین الیکٹرانک میڈیا پر خصوصی طور پر بپا تھا۔

لمبی لمبی جھوٹی سچی چھوڑنے کا ایک مقابلہ تھا انڈین چینلز کے درمیان ریٹنگ کے لیے،خواہشوں اور اوپر سے دی ہوئی یا ملی ہوئی گائیڈ لائنزکو خبر بنا کر پیش کیا جا رہا تھا ، اگر ان چینلز کو دیکھا جاتا تو حقیقت کے بالکل برخلاف یہ لگتا اور محسوس ہوتا کہ یہ جنگ انڈیا ہر طرح سے جیتتا چلا گیا اور خاکم بدہن پاکستان بری طرح سے ہار گیا، اپنی حکومت اور آرمی کے ہر اس مسخرانہ جنگی قدم کا جسکا جنگی ماہرین اور بین الااقوامی میڈیا رج کے تمسخر اڑا رہے تھے،اسے عظیم جنگی چال اور بہادری کا کارنامہ بناکر پیش کرنے میں مصروف اور منہمک انڈین میڈیا بیچارہ گلا پھاڑتا اور چنگھاڑتا ہی رہ گیا اور پاکستان نے، فوجی، سیاسی اور بین الااقوامی سطح پر شاندار کامیابیاں حاصل کرکے ان کے پروپیگنڈے کو الٹا ان ہی کے خلاف بین ثبوت بنا دیا۔ او آئی سی کا اعلامیہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کوئی بھی جھوٹ جسے بہت سجا سنوار کے بھارت مہان کی فلمی کریم اور پاؤڈر تھوپ کر پیش کیا گیا، ثابت نہ ہو سکا۔ نہ جیش محمد کے کیمپ پر فضائی حملے کے بعد ساڑھ تین سو کے قریب جاں بحق افراد کو انڈین میڈیا دکھا سکا نہ ہی اس ایف 16 طیارے کی کوئی تصویر،کوئی پرزہ تک دکھا سکا جو بقول انڈین چانکیائی میڈیا ان کی فضائیہ نے گرایا تھا، اپنے چینلز پر پاکستانی قوم کے جنگ سے ڈرے ہوئے ہونے کے پروپیگنڈے کو ہم نے بھی پی ایس ایل کو انجوائے کرتے ہوئے کمال اطمینان سے بے اثر کر ڈالا پھر چانکیائی میڈیا والے مہاشے پائلٹ ابھی نندن کی شرمناک گرفتاری کو بہادری کا زبردست کارنامہ قرار دینے میں لگ گئے کہ گویا وہ پائلٹ مہاشے کسی بہت کھٹن مشن کو جیت کر بہادری سے پانچ چھ پاکستانی جہاز گرا کرگویا عظیم پاکستانی فائٹر پائلٹ جناب ایم ایم عالم کا 65ء کی جنگ میں ایک منٹ میں 5بھارتی طیارے گرانے کا ناقابل تسخیر عالمی ریکارڈ توڑ کر گرفتار ہوئے ہوں۔

اپنے ہی میڈیا کی ہرزہ سرائی کا مناسب جواب تو بیچارے پائلٹ مہاشے نے اپنے ویڈیو بیان میں خود ہی دیدیا کہ ہمارا بھارتی میڈیا چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور پھر اس بیچارے کو ملک میں پہنچتے ہی زیرو بنا دیا گیا اور بھی نہ جانے کتنے پروگرام،کتنی نفرت انگیز اور جھوٹی باتیں، کتنے جھوٹے فسانے، اول جلول تجزیے، پاکستان کو عالمی برادری میں سیاسی اور سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے ایسے دعوے جن پر اب تو ہنسی بھی نہیں آتی، ان دنوں بھارتی چینلز سے جس طرح نشر کیے گئے وہ اظہرمن الشمس ہیں ۔ تو انڈین میڈیا نے ثابت کر دیا کہ وہ چانکیہ اورگوئبلزکے سچے پیروکار ہیںگو کہ ان قیامت کے شور میں چند ایک ان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سلجھے ہوئے لوگوں نے سمجھداری کی باتیں کہنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی مگر ان بیچاروں کی آواز تو نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح بس دب کر ہی رہ گئی۔اس کے بالمقابل پاکستانی میڈیا کا کردار قابل تحسین رہا اور یہ بات عالمی خبر رساں ایجنسیوں، عالمی اخبارات اور بین الاقوامی چینلز میں تواتر سے دہرائی گئی کہ پاکستانی میڈیا کی رپورٹنگ ،تجزیے اور مباحثے بہت متوازن تھے اس میں ہیجان، نہ جھوٹ، بلکہ سکون و اطمینان سے واقعاتی خبریں، رپورٹیں اور سنجیدہ تجزیئے پیش کیے گئے، افراتفری اور سنسنی پھیلانے سے اجتناب برتا گیا ، اعداد وشمار اور منطق پر مبنی ایسے تجزیے پیش کیے گئے جنکی عالمی سطح پر انٹرنیشنل میڈیا نے بھی توصیف و مدح کی۔پاکستانی نیوز چینلز اور پرنٹ میڈیا نے ثابت کر کے دکھا دیا کہ وہ بھارتی میڈیا کے مقابلے میں کتنا زیادہ میچور ہے گو کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا عمر میں انڈین میڈیا سے بہت چھوٹا ہے مگر چھوٹے نے بزرگوارکو ہر سطح پر کھلی مات دیدی اور عالمی سطح پر بھی اپنی اہمیت و وقعت میں اضافہ کیا،انڈین چانکیائی پروپیگنڈے کا سچائی کو استعمال کرتے ہوئے توڑکیا ان کے میڈیائی پروپیگنڈے کا ہر سطح پر موزوں اور مناسب جواب دیا،لائیو مباحثوں میں ہمارے صحافیوں نے بارہا ان کی بولتی بند کی اور بڑے تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے کی۔ براوو پاکستانی میڈیا۔(خرم علی راؤ)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں