تحریر: سید بدرسعید۔۔
لوکل مارکیٹ اور برانڈ مارکیٹنگ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ برانڈ مارکیٹنگ میں آپ کے ذہن ، فکر اور سوچ کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ پیپسی یا کوک کو اپنی مارکیٹنگ کی ضرورت ہے ؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کوک یا پیپسی ایک مشروب ہے ؟ اس کے باوجود یہ اس حد تک مارکیٹنگ کرتے ہیں کہ دکانوں کے شٹر تک کا رنگ اپنے لوگو کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں ۔ 5، 6 سال کا بچہ پیپسی نہیں پیتا لیکن اس کے لیے بھی پیپسی کے لوگو والی گیند تیار کی جاتی ہے کیونکہ وہ دکاندار کو جا کر کہے گا انکل پیپسی والی گیند دے دیں ۔یہ ذہن سازی ہے ،جب وہ بچہ ہائی سکول یا کالج میں جائے گا تو لاشعوری طور پر پیپسی کو ترجیح دے گا کیونکہ اس کے لاشعور میں پیپسی والی گیند کے لیے پسندیدگی شامل ہے
برانڈز آپ کے لاشعور میں سٹیٹس ڈالتا ہے ۔ آپ کو لگنے لگتا ہے کہ اگر آپ برانڈ استعمال کر رہے ہیں تو آپ دوسروں سے زیادہ خاص ، امیر اور اچھے لائف سٹائل کے مالک ہیں ۔ برانڈ آپ کو قدرے چھچھوڑا بھی بنا دیتا ہے کہ آپ شو آف کریں آپ فلاں برانڈ استعمال کر رہے ہیں
میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں
چند سال قبل تک ہمارے یہاں انڈا شامی دیسی برگر چلتا تھا ۔ زنگر ، پیٹی و دیگر برگرز کا ٹرینڈ نہیں تھا ۔ دیسی ریسٹورنٹ ڈھابے یا برگر کاونٹر کے ساتھ پڑی پلاسٹل کی کرسی میز پر آپ کو برگر والا یا ویٹر ٹہبل سروس دیتا تھا ۔پھر برانڈز کے ایف سی ، میکڈونلڈ ، سب وے ، پاپا جونز و دیگر آ گئے ۔ یہاں آپ کو ٹیبل سروس نہیں ملتی ،آپکو خود جا کر سیلف سروس کے تحت پہلے آرڈر دینا ہوتا ہے ،پھر ٹوکن کے مطابق جا کر اپنا آرڈر لانا ہوتا ہے ۔ یہاں آپ کو مارکیٹ سے مہنگا برگر ملتاہے ، کیچپ ، چٹنیاں ،سلاد و دیگر لوازمات کے بنا برگر بریڈ میں ایک فرائی ” بوٹی ” اور ایک پتا رکھ کر زنگر برگر آپ کے متھے مار دیا جاتا ہے ۔ آپ وہ برگر کھاتے ہیں ،اس کی اور اپنی سیلفی بناتے ہیں ،وہ تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں اور ساتھ ریسٹورنٹ کا نام و لوکیشن بھی ڈالتے ہیں
کبھی سوچا آپ کیا کر رہے ہیں ؟؟؟ آپ مہنگی چیز خرید کر اس کی مفت مارکیٹنگ کر رہے ہیں ۔ وہ کام جس کا ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں بھاری معاوضہ لیا جاتا ہے آپ اپنی جیب سے پیسے لگا کر کرتے ہیں ۔
ان برانڈز کا ہر دوسرا کسٹمر ان کا فری مارکیٹر ہے ۔ رویو کے نام پر ،سٹیٹس کے نام پر ، لگژری لائف اسٹائل کے نام پر آپ برانڈز کی مفت مارکیٹنگ کرتے ہیں ۔یہ برانڈ مارکیٹنگ کی تکنیک ہے ۔ برانڈ آپ کے لاشعور میں آپ کے خاص ہونے کا احساس ڈال کر آپ کو اپنی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتا ہے
اب ایک اور فرق دیکھیں ۔ہماری روایتی جنرل اور کریانہ سٹور ہوا کرتے تھے ۔لوگ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد گلی میں اپنے گھر کی “بیٹھک ” میں چھوٹا سا کریانہ سٹور کھول لیتے تھے ۔ ان چھوٹے جنرل سٹور پر پورے محلے کا کھاتا چلتا تھا ۔خواتین دن میں سودا منگوا لیتی تھیں ، شوہر شام میں کام دھندے سے آ کر پیسے دے جاتے تھے ، کئی کا ہفتہ وار یا ماہانہ کھاتا چلتا تھا ، مہینے بعد تنخواہ آتے ہی پچھلا بل چکا دیا جاتا تھا ۔ سب سے مزے کی بات یہ کہ ان کریانہ سٹور پر “جھونگا” بھی ملتا تھا ، خصوصا بچے جھونگا لیے بنا نہیں ٹلتے تھے ۔
پھر سرمایہ داروں نے بڑے سٹور بنا لیے ، میٹرو ،امپوریم ،شاپنگ مالز وغیرہ آئے تو ان کریانہ سٹور کو کھا گئے ۔ محلے کا ادھار کھاتا سسٹم ، جھونگا ، حال احوال سب ختم ہو گیا ۔اب ان برانڈز کے سٹور اور بیکریوں پر کیا ہو رہا ہے؟ وہی آپ کے پیسوں سے اپنی مارکیٹنگ چل رہی ہے ۔
آپ کو سبزی والے کے پاس شاپنگ بیگ مل جائے گا، دودھ دہی کی دکان پر بھی مفت شسپنگ بیگ مل جائے گا لیکن ان برانڈز کے پاس شاپنگ بیگ پر پابندی کے نام پر مفت شاپنگ نہیں ہو گا ۔ کیونکہ اب یہ شاپنگ بیگ پر کما بھی رہے ہیں ،مارکیٹنگ بھی کر رہے ہیں ۔آپ گورمے ، مالمو ،شیزان سمیت کسی برانڈ بیکری یا شاپنگ مال میں چلے جائیں۔ یہ آپ کو لگ بھگ دس روپے کا ایک کاغذی شاپنگ بیگ دیں گے جس کی مضبوطی مفت والے شاپنگ بیگ سے کم ہو گی ۔ یہی نہیں بلکہ اس شاپنگ بیگ پر ان کے برانڈ کا اشتہار چھپا ہو گا ۔ یہ اپنا مارکیٹنگ شاپنگ بیگ آپ کو دس روپے میں بیچ دیں گے اور آپ مجبورا یا ہنسی خوشی ان سے ان کا مارکیٹنگ سٹف پیسے دے کر خرید رہے ہیں ۔اس کے بعد بل بننے ہر ایک روپیہ واؤچر ٹیکس کے نام پر کاٹا جائے گا ۔ یہاں دن میں ہزار سے زیادہ کسٹمر آتے ہیں ،کئی جگہ ایک دن میں 5 ہزار سے بھی زائد کسٹمر ہیں ۔اب آپ دودھ دہی کی دیسی دکان پر چلے جائیں ۔نہ شاپنگ بیگ کے الگ سے پیسے ہیں اور نہ ہی واؤچر ٹیکس لیا جائے گا
یہ برانڈ اور لوکل مارکیٹ کا فرق ہے
پبلک ریلیشنگ ، برانڈز مارکیٹنگ ، ایڈورٹائزنگ میرے شعبے کا حصہ ہے ۔ میں ان سب چیزوں کو بہت قریب سے دیکھتا ہوں ۔ مجھے کبھی ہنسی آتی ہے ، کبھی رونا آتا ہے کہ کس طرح برینڈز نے ہم سب کے ذہنوں کو کنٹرول کر لیا ہے۔ آپ آزادی سے وہی سب کرتے ہیں جو برانڈز چاہتا ہے ۔کوشش کیجیے برانڈز کی اس غلامانہ زندگی سے باہر نکلیں ، اپنی زندگی جینے کا مزہ لیں. اور حقیقی خوشیاں تلاش کریں ورنہ آپ مرتے دم تک برانڈز کی سٹریٹیجی کا شکار رہیں گے ، برانڈز آپ کے ذہن کو اس طرح کنٹرول کریں گے کہ آپ ان کے ہاتھوں استعمال بھی ہوتے رہیں گے اور آپ کو لگے گا بھی یہی کہ آپ آزاد زندگی گزار رہیں ہیں (سید بدر سعید)