crime free city 2

برین ڈرین

تحریر: جاوید چودھری

وہ میرا بچپن کا دوست تھا‘ سعودی عرب میں تھا‘ بیٹی گھر پر اکیلی تھی‘ عزیز رشتے دار تھے نہیں‘ ایک خالہ تھی وہ بھی ان پڑھ‘ بچی نے آئیلٹس کا ٹیسٹ دینا تھا‘ میرے دوست کا فون آیا اور اس نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’آپ کراچی میں کسی جاننے والے کو کہہ سکتے ہیں وہ میری بیٹی کو امتحانی سینٹر تک پہنچا دے‘‘۔

میں اتفاقاً اس دن کراچی تھا‘ میں نے اس کی ساری بات سننے کے بعد اسے تسلی دی اور کہا ’’تم فکر نہ کرو‘ کل میرا ڈرائیور بیٹی کو لے لے گا‘ میں جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں یہ امتحان اسی ہوٹل میں ہو رہا ہے‘ میں بیٹی کے ساتھ خود رجسٹریشن کے لیے جاؤں گا اور امتحان کے بعد اسے کھانا کھلا کر واپس پہنچا دوں گا‘‘ میرا دوست خوش ہو گیا‘ یہ پچھلے مہینے جولائی کی بات ہے‘ آئیلٹس (IELTS) کا امتحان برٹش کونسل لیتی ہے اور یہ ہر ہفتے کے دن کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ہوتا ہے‘یہ انگریزی میں استعداد کا امتحان ہے اور یہ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے یا پھر امیگریشن کے لیے ضروری ہوتا ہے‘یہ ٹیسٹ ریڈنگ‘ لسننگ‘رائیٹنگ اور اسپیکنگ کے نو نو بینڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔

آپ اگرہر بینڈ میں 6.5 بینڈحاصل کرتے ہیںتو آپ عالمی یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی لے سکتے ہیں‘ آپ ترقی یافتہ ملکوں میں جاب بھی کر سکتے ہیں اور آپ امیگریشن بھی حاصل کر سکتے ہیں‘ بہرحال قصہ مختصر میرا ڈرائیور بچی اور اس کی خالہ کو لے آیا اور میں انھیں لے کر امتحانی ہال میں چلا گیا‘ میں وہاں پہنچ کر حیران رہ گیا‘ ہال میں تین ساڑھے تین سو لوگ موجود تھے‘ یہ تمام لوگ رجسٹریشن کرا رہے تھے‘ یہ مجھے دیکھ کر میرے گرد جمع ہونے لگے۔

ہر شخص مجھ سے پوچھ رہا تھا ’’سر آپ بھی جا رہے ہیں‘‘ اور میں ہر بار قہقہہ لگا کر کہتا تھا ’’اللہ نے اگر مجھے آزاد ملک میں آزاد پیدا کیا ہے اور مجھے میری ضرورت اور اوقات سے زیادہ عزت اور رزق دیا ہے توپھر مجھے غلامی اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے محسوس کیا میرے الفاظ کسی کے دل‘ کسی کی روح تک نہیں پہنچ رہے ‘ میں نے لوگوں سے ان کی تعلیم اور پروفیشن کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا‘ میں حیران رہ گیا۔

ہال میں موجود تمام لوگ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ پروفیسرز‘ آئی ٹی اسپیشلسٹ اور ایم بی اے تھے‘ میں ان کی کوالی فکیشن دیکھ کر حیران ہو رہا تھا‘ قوم نے ان کی تعلیم اور تربیت پر کروڑوں روپے خرچ کیے تھے لیکن یہ ملک چھوڑنے کے لیے ٹیسٹ دے رہے تھے‘ مجھے وہاں کھڑے کھڑے پتا چلا کینیڈا اور آسٹریلیا میں امیگریشن کی عمر کی حد 38 سال ہے‘ آپ اگر پروفیشنل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ آپ کی عمر 38 سال سے کم ہے اور آپ اگر آئیلٹس کا ٹیسٹ پاس کر لیتے ہیں تو کینیڈا اور آسٹریلیا بڑی آسانی سے آپ کو امیگریشن دے دیتا ہے‘ آپ فیملی سمیت وہاں جا کر سیٹل بھی ہو سکتے ہیں اور ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ معلومات میرے لیے ہوش ربا تھیں‘ میں نے لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا ’’آپ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ آپ کے پاس باعزت روزگار بھی ہے‘ عزیز ‘ رشتے دار‘ والدین‘ بھائی‘ بہن اور دوست بھی ہیں‘آپ کے پاس زبان بھی ہے‘ کلچر بھی ہے اور انٹرٹین منٹ کے لیے اتنی زبردست گورنمنٹ بھی ہے لیکن آپ اس کے باوجود ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ کیوں؟‘‘ آپ یقین کریں لوگ میرے گلے پڑ گئے‘ آئی ٹی کمپنی کا ایک مالک بولا ’’میں کراچی شہر میں ایک مہینے میں تین بار اپنے موبائل فون سے محروم ہو چکا ہوں‘ مجھے موبائل کی کوئی پروا نہیں لیکن جب تین بار میری کنپٹی پر پستول رکھا گیا اور میں نے جو خوف محسوس کیا وہ میں پوری زندگی نہیں بھول سکتا۔

میری یہ تکلیف اگر یہاں تک رہتی تو بھی شاید میں سہہ جاتا لیکن میں جب رپٹ درج کرانے کے لیے تھانے گیا اور محرر نے میرے ساتھ جو سلوک کیا وہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا‘ مجھے محسوس ہوا میں چار پانچ کروڑ روپے ٹیکس اور سو لوگوں کو نوکری دینے کے بعد بھی اس ملک میں کچھ نہیں ہوں چناں چہ میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا‘‘ ایک خاتون ڈاکٹر بولی’’میں دن میں سرکاری اسپتال میں کام کرتی ہوں‘ شام کو کلینک بھی جاتی ہوں‘ میرا خاوند بھی کام کرتا ہے لیکن ہم دونوں مل کر بھی بچوں کے اسکولوں کی فیس‘ بجلی اور گیس کے بل اور ٹیکس ادا نہیں کر پاتے‘ ہمیں پانی کے لیے بھی چار چار ہزار روپے کا ٹینکر ڈلوانا پڑتا ہے اور یہ پانی بھی گندے نالوں کا ہوتا ہے۔

ہم لوئر مڈل کلاس ہیں لیکن ہم ہر ماہ چھ سات ہزار روپے کا پینے کا پانی خریدتے ہیں‘ ہم یہ بھی برداشت کر جاتے لیکن ہم اور ہمارے بچے جب باہر نکلتے ہیں تو ہمیں دور دور تک گندگی کے ڈھیر ملتے ہیں‘ ہم ٹی وی پر روز کسی نہ کسی بچے کی لاش گٹر سے نکلتے دیکھتے ہیں‘ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں‘ پل کس وقت کس کی گاڑی پر گر جائے ہم نہیں جانتے‘ میں جس اسپتال میں کام کرتی ہوں اس میں چالیس مریضوں کی گنجائش ہے لیکن ہمارے پاس روزانہ اڑھائی ہزار مریض آتے ہیں۔

ہم انھیں کوریڈورز میں فرش پر لٹا کر ٹیکا اور ڈرپ لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ ہم اگر یہ نہ کریں تو مریض مر جائیں چناں چہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا‘‘ مجھے ایک نوجوان نے بتایا’’ صدر میں میرے دادا کی پراپرٹی تھی‘ اس پراپرٹی پر قبضہ ہو گیا‘ دادا کیس لڑتے رہے‘ دادا کے بعد والد کی زندگی بھی کورٹ کچہریوں میں گزر گئی‘ مجھے یہ فائل ملی تو پتا چلا اس پراپرٹی پر اب بہت بڑا پلازہ بھی بن چکا ہے اور قبضہ گیر اس پلازے کو فروخت کر کے دبئی بھی جا چکا ہے۔

میں انجینئر ہوں چناں چہ میں نے وہ ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا جہاں اپنی پراپرٹی کے لیے تین تین نسلوں کو دھکے کھانا پڑیں‘‘ مجھے ایک پروفیسر نے عجیب بات بتائی‘ ان کا کہنا تھا ’’میں فزکس میں پی ایچ ڈی ہوں‘ کالج میں پڑھاتا ہوں‘ میں کالج جاتا ہوں تو شاگرد میری عزت نہیں کرتے‘ میں گھر آتا ہوں تو گھر میں بھی مجھے عزت نہیں ملتی اور میں شہر میں نکلتا ہوں تو مجھے وہاں بھی اوئے کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے‘ میں بے عزتی کرا کر تھک گیا ہوں‘ میں اب کسی ایسے معاشرے میں جانا چاہتا ہوں جہاں پروفیسر کی عزت ہو‘ جہاں لوگ اسے سر کہہ کر مخاطب ہوں‘‘۔

مجھے ایک نوجوان نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات بتائی‘ اس کا کہنا تھا ’’میں فنانشل کنسلٹنٹ ہوں‘ میں اب تک سو لوگوں کو کروڑ پتی بنا چکا ہوں‘ میں اکثر دیکھتا ہوں ہمارے حکمران ہر چھوٹے بڑے مسئلے کے لیے امریکا کی طرف دیکھتے ہیں‘ یہ کشمیر کے لیے بھی نیویارک کی طرف دوڑ پڑتے ہیں‘ امریکی صدر کو سعودی شاہ بھی جھک کر ملتے ہیں اور ایران بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو راضی کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے۔

یہ تمام لوگ امریکا کی طرف دیکھ رہے ہیں تو پھر امریکا یقینا پوری دنیا میں اہم ترین ملک ہے چناں چہ میں نے فیصلہ کر لیا میں وہاں جا کر رہتا ہوں جہاں یہ لوگ جا کر سجدے کرتے ہیں‘ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے ہمارے سارے مسئلے مکہ اور مدینہ میں حل ہوتے ہیں لیکن جب مدینہ اور مکہ کے حکمران اللہ کے اصلی گھر کو چھوڑ کر نیو یارک اور واشنگٹن جا رہے ہوں‘ جب عمران خان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خانہ کعبہ کی بجائے وائٹ ہاؤس جا ئے تو پھر مجھے یہاں رہنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں اس ہال میں چند لمحے رکا لیکن ان چند لمحوں نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘ میں کمرے میں واپس آگیا اور دیر تک پسینہ خشک کر تا رہا۔

میں نے کل کے اخبار میں ایک دلچسپ خبر پڑھی‘ خبر میں انکشاف ہوا برٹش کونسل ہر ہفتے کراچی میں آئیلٹس کا ٹیسٹ لیتی ہے‘ امتحان کی فیس 32 ہزار روپے ہے اور ہر ہفتے اوسطا اڑھائی سو لوگ ٹیسٹ دیتے ہیں‘ ہم اگر 32 ہزار کو اڑھائی سو سے ضرب دیں تو یہ رقم 80 لاکھ روپے بنتی ہے‘ اگرمہینے میں چاردفعہ ٹیسٹ ہوں تو یہ رقم تین کروڑ20 لاکھ روپے بنتی ہے اور ہم اگر اسے بارہ سے ضرب دے دیں تو یہ رقم سالانہ 38کروڑچالیس لاکھ روپے بن جائے گی اور یہ صرف کراچی کے سینٹر کے اعداد و شمار ہیں جب کہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی سینٹر موجود ہیں اور وہاں بھی تقریباً اتنے ہی لوگ ہر ہفتے امتحان دیتے ہیں‘ خبر میں انکشاف ہوا یہ تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل ہوتے ہیں‘ یہ ملک کی کریم بھی ہوتے ہیں اور یہ ماہانہ تین سے چار لاکھ روپے بھی کماتے ہیں۔

یہ لوگ یقینا کارآمد ہیں‘ یہ اگر ناکارہ ہوتے تو کینیڈا‘ آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ملک انھیں کبھی نہ لیتے لہٰذا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ کارآمد‘ پروفیشنل‘ باعزت اور خوش حال لوگ ملک کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ ہم اگر ریاست مدینہ کی طرف بڑھ رہے ہیں یا ہم نئے پاکستان کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں تو پھر پوری دنیا سے پاکستانی پروفیشنلز کوپاکستان واپس آ جانا چاہیے جب کہ یہاں ٹیسٹ دینے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں‘ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ حکومت کو فوری طور پر کوئی اعلیٰ سطح کمیشن بنا کر اس ایشو پرتحقیق کرنی چاہیے‘ یہ کمیشن پڑھے لکھے پروفیشنلز کے ایشوز بھی سنے اور پھر ایسی پالیسیاں بھی بنائے جن کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ملک میں عزت‘ رزق اور سکون مل سکے۔

ہمارے ڈاکٹرز اور انجینئرز جس طرح ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں ہمیں چند برس بعد پٹی کرانے اور پل بنانے کے لیے بھی باہر سے لوگ منگوانا پڑ جائیں گے‘ یہ صورت حال الارمنگ ہے اور یہ الارمنگ صورت حال منہ سے بول رہی ہے ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز کو عمران خان کی قیادت بھی مطمئن نہیں کر سکی‘ یہ ان سے بھی خوش نہیں ہیں اور یہ کوئی چھوٹا ریفرنڈم نہیں‘یہ لوگ ملک کا برین ہیں‘ برین کے بغیر جسم چل سکتا ہے اور نہ ملک لہٰذا حکومت کو اس ایشو پراپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی۔(بشکریہ ایکسپریس)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں