تحریر: ناصر جمال
جمہوریت اعلیٰ اخلاقی اقتدار مانگتی ہے۔ ماشاء اللہ، ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اُس سے کوُسوں دور ہے۔ آج تمام سیاسی جماعتیں، بے اصولی کی دلدل میں گردن، گردن تک دھنسی ہوئی ہیں۔ مگر ماننے کو تیار نہیں ۔ مجھے سب سے زیادہ حیرت عمران خان پر ہوتی ہے۔ جب وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر، اخلاقیات، اسلام، ریاست مدینہ، اور مغربی جمہوریت کی مثالیں دیتے ہیں تو، یقین کیجیئے، لوٹ پوٹ ہونے کو دل چاہتا ہے۔ بقول آپ کے اپوزیشن ساری چور ہے۔ روایات شکن ہے۔ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہے۔ مگر حضور آپ کے دامن میں کیا ہے۔ کیا آپ آصف زرداری کے ساتھ مل کر کبھی، سینٹ میں لوٹا کریسی کو ہوا نہیں دے رہے تھے۔ صادق سنجرانی کیسے چیئرمین بنے تھے۔ پھر عدم اعتماد کیسے ناکام ہوا تھا۔ ویسے بے شرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ آج آپ مغربی جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں۔ کیا، آپ بتا سکتے ہیں۔ جب آپ قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے تھے۔ آپ کے اتحادی آپ کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ آپ مستعفیٰ ہونے کی بجائے، سائفر، امریکی سازش اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے پیچھے کیوں چھپ گئے تھے۔
آج آپ دوسروں سے اعلیٰ اخلاقی اقدار، روایات اور جمہوری رویوں کی توقعات رکھتے ہیں۔
قارئین،میرے دوست شہزاد فاروقی، مجھ سے تحریک انصاف پر شدید تنقید پر ناراض ہوتے ہیں۔ میں ہنستا ہوں۔ وہ کہتے ہیں تم پارٹی بن چکے ہو۔ میں انھیں کہتا ہوں۔ میں نے تو ،عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ بطور تحقیقاتی صحافی، وہ میرے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے۔ اعظم خان کی بطور پرنسپل سیکرٹری تقرری، مہمند ڈیم کے متنازعہ ترین کنٹریکٹ ایوارڈ، گھڑیوں کی لوٹ سیل، پیٹرول اسکینڈل، گندم اسکینڈل ،ڈیزل اور فرنس پر مہنگی بجلی پیدا کرنے کے غلط فیصلوں سمیت تقریباً پونے چار سال ڈٹ کر لکھا۔ مہمنڈ ڈیم پر مشیر مدینہ ( رزاق دائود) کا ڈاکہ تو ،میں نے ہی بے نقاب کیا تھا۔ آج جس چیف الیکشن کمشنر پر وہ تنقید کررہے ہیں۔ ہم نےاس کی تقرری پر ہی لکھا تھا کہ ’’اُن کی عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے۔پھر کہتا ہوں کہ رئوف کلاسرہ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہمیں اپنی پسند کا لُٹیرا چاہئے۔ کسی کو فرح گوگی سوٹ کرتی ہے۔ کسی کو فہمیدہ مرزا پسند ہے۔یہاں تو جماعت اسلامی، (ن) لیگ کو ڈاکو کہتی ہے۔ پھر چیئرمین سینٹ کا ووٹ بھی انھیں ہی دے دیتی ہے۔ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ یہاں تو کبھی عمران اور مولانا فضل الرحمٰن بھی ایک ہی اسٹیج پر ہوا کرتے تھے۔ عمران خان نے مشرف کے ریفرنڈم میں اس کی کمال حمایت کی تھی۔ اس زمانے میں وہ” مستفید“ بھی ہوئے۔اگر شیخ رشید کہتے ہیں کہ سب جی۔ ایچ۔ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں۔
قارئین،آپ ماضی بعید کو چھوڑیں۔ ماضی قریب کی بات کرتے ہیں۔ 2002ء سے 2022ء تک کا جمہوریت کا سفر دیکھ لیں۔ چوتھی اسمبلیاں ہیں۔ آپ کو ’’لوٹا ازم‘‘ کمال پنپتا ہوا دکھائی دے گا۔ سب نے دل کھول کر لوٹوں کو قبول کیا۔ پیپلز پارٹی سے پٹریاٹ، محترمہ کی اجازت اور مرضی سے نکلا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کیا اسٹیبلشمنٹ سے کمال ڈیل نہیں کی۔ ایم۔ ایم۔ اے جو خود کو اسلام کی محافظ کہتی تھی۔ استعفوں کے باجود، پرویزمشرف کو 2007ء نومبر میں صدارت کے انتخاب کو قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرنے پہنچ گئے۔ آصف زرداری آئے تو (ق) لیگ قاتل لیگ تھی۔ پھر وہی اُس حکومت میں زرداری کی اتحادی بن گئی۔ پرویز الٰہی ساڑھے تین سال ڈپٹی وزیراعظم رہے۔ میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ جاپہنچے۔ انھوں نے ’’لوٹوں کے غول‘‘ قبول کئے۔ سردار رحیم جیسے منہ دیکھتے رہ گئے۔ عمران خان، اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جا بیٹھے۔ جنرل شجاع پاشا، ظہیر السلام اور جنرل فیض کا ’’سیاسی کردار‘‘ سب کے سامنے ہے۔ ویسے لانگ مارچ دونوں بار،کس نے کروایا۔ کیا، آج یہ کوئی سیکرٹ ہے۔ ملک کے بچے بچے کو پتا ھے۔صرف آپ اور” دوست“ ہی ماننے پر تیار نہیں۔ نواز شریف پہلے سیاسی گیم سے کیسے آئوٹ ہوئے۔ وہ ملک سے کیسے باہرگئے۔ عمران خان کیسے راندہ درگاہ ہوئے اور راندہ درگاہ کیسے لاڈلے ہوگئے۔ کوئی تو مانے۔ کوئی تو سیکھے۔ کیا سب اندھے ہیں۔ یا اپنے، اپنے سیاسی اور مذہبی فرقے میں قید ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سیاستدان، اپنے مسائل پارلیمنٹ کی بجائے، فرشتوں اور ججز کے پاس ہی جاکر کیوں حل کرتے ہیں۔
قارئین،آپ مجھے بتائیں، اگر عمران خان نے پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھنا، تو وہ ضمنی انتخاب کیوں لڑے رہے ہیں۔ اگر اقتدار ملے تو، آج پنجاب اسمبلی حلال ہے۔ مگر قومی اسمبلی حرام ہے۔ آخر کیوں۔۔۔ آپ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔سیاستدان پہلے قومی اسمبلی میں گند کرتے رہے۔ اب پنجاب اسمبلی میں تین ماہ سے گند کررہے ہیں۔ پہلے ایک پارٹی اس پر فخر کرتی تھی۔ آج دوسری خوش ہو رہی ہے۔کسی کو عام آدمی کی پرواہ نہیں ہے۔ جب عام آدمی کو اپنی پرواہ نہیں ہے تو ،اُس کی کوئی کیوں پرواہ کرے۔معیشت برباد سے برباد تر ہورہی ہے۔ عام آدمی کو اگر ڈالر چاہئے تو اُسے 245روپے میں مل رہا ہے۔ یہی صورتحال رہی تو، بجلی کا یونٹ 50روپے کا بھی ہوسکتا ہے۔ ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر نکل جائے گی۔جس طرح سے سیاستدان دست و گریبان ہیں۔ اس کا یقینی طورپر نتیجہ خوشگوار نہیں نکلے گا۔
میں نے کبھی لکھا تھا کہ یہ نظام اپنی مدت پوری کر چکا ہے۔ ہوسکتا ہے عمران خان اس کا آخری ’’بینفشری‘‘ ہو۔ آج دیکھتا اور سوچتا ہوں تو، حالات اُسی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی بحران اور بڑھے گا۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا۔ کبھی عمران خان ”بوٹ “ڈرایا کرتے تھے۔ اب دوسرا فریق نہیں ڈر رہا۔ وہ بھی کہہ رہا ہے کہ ہم جو ڈوبے تو صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ غیر منتخب ، ٹیکنو کریٹ، سیٹ، اپ آیا تو، پھر اس ملک میں شاید تحریک انصاف نامی پارٹی، اگلے انتخابات تک نہ ہی ہو۔ رہ گئی ہماری عوام، تو وہ نیا تماشا بڑے شوق سے دیکھ رہی ہوگی۔ انھیں تو دیکھنے کو ایک تماشا چاہئے۔ عقل اور شعور سے عاری نیوٹرلز اور بابوئوں کو دھمکیاں دینے والے بڑے ہی بادشاہ لوگ ہیں۔ ہمارا ملک یونہی بے ڈھنگی چال چلتا رہے گا اور عوام ایسے ہی تالیاں بجاتے، آوے ہی آوے ، جاوے ہی جاوے کے نعرہ مستانہ بلند کرتے رہیں گے۔ اگر سیاستدان نہ سنبھلے تو بوٹوں کی دھمک اور ٹیکنوکریٹ کے قلم کی کاٹ بہت ہی قریب ہے۔(ناصرجمال)۔۔