علی عمران جونیئر
دوستو،جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 80 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ جاپان کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایک کروڑ 25 لاکھ افراد کی عمر 80 یا اس سے زیادہ ہے جب کہ 2 کروڑ سے زیادہ افراد کی عمریں 75 سال یا اس سے زائد ہے۔۔ بارہ کروڑ44 لاکھ کی مجموعی آبادی والے جاپان میں 65 سال سے زائد عمر والوں کا تناسب 29.1 فیصد ہے۔ اس طرح جاپان 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کی کل آبادی کے تناسب سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔عمر رسیدہ آبادی والے ممالک کی اس دوڑ میں دوسرے نمبر پر اٹلی دوسرے اور فن لینڈ تیسرے نمبر پر ہے۔جاپان بزرگ لیبر فورس کے اعتبار سے بھی پہلے نمبر پر ہے جہاں 90 لاکھ بزرگ افراد کام کرتے ہیں۔ یہ تعداد جاپان کی مجموعی افرادی قوت کا 13.6 فیصد بنتی ہے۔جس کا مطلب ہے کہ ہر 7 صاحبان روزگار میں سے ایک کام کرنے والا فرد ‘عمر رسیدہ’ ہے۔جاپان میں نوجوانوں کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہونے اور بزرگوں کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ تاخیر سے شادی اور بچے پیدا نہ کرنا ہے۔
سوال پوچھا جائے کہ بڑھاپا کیا ہے؟ تو پہلی سوچ یہی آتی ہے اور جواب ملتا ہے کہ عمر کا بڑھنا۔۔لیکن سائنس بتاتی ہے کہ عمررسیدگی کوئی مسلسل عمل نہیں بلکہ حیاتیاتی طور پر اس کے تین ادوار ہیں جنہیں آپ بڑھاپے کو بڑھانے والے ‘گیئر’ کہہ سکتے ہیں۔ 2019 میں کی گئی ایک طویل تحقیق میں خون کے 4000 مختلف ٹیسٹ کیے گئے ہیں جن سے معلومات ہوا ہے کہ حیاتیاتی بڑھاپے (بایولاجیکل ایجنگ) کا ظہور 34، 60 اور 78 سال کی عمر میں یک لخت ایک نیا روپ لیتا ہے۔ اس طرح بڑھاپے کی رفتار پوری عمر یکساں نہیں رہتی بلکہ اس میں تیزی اور تبدیلی رونما ہوتی ہے۔اس تحقیق سے بڑھاپے کے جسمانی اثرات، اعضا کے متاثر ہونے اور الزائیمر یا امراضِ قلب کو سمجھنے اور علاج میں مدد بھی حاصل ہوگی۔ اس مطالعے میں پروٹیومکس کا علم استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت خون میں پروٹین کی مقدار اور معیار دیکھے جاتے ہیں۔معلوم ہوا کہ خون میں مختلف پروٹین کی مقدار سے حیاتیاتی عمررسیدگی کا بہتر اندازہ ممکن ہے۔ اس عمل میں خون میں پروٹین کی مقدار یا پروٹیوم کو دیکھا جاسکتا ہے جو بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ گچھوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں تو کبھی خاص شکل میں ڈھل جاتے ہیں، لیکن یہ عمر کے تین مختلف حصوں میں زیادہ ہوتا ہے جنہیں بڑھاپے کی تین لہریں کہا جاسکتا ہے۔اس عمل میں 18 سے 95 برس کے 4263 افراد کے خون کا پلازمہ لیا گیا اور ان میں 3000 مختلف قسم کے پروٹین دیکھے گئے۔ ان میں سے 1379 پروٹین عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں جو بڑھاپے کی ایک بہتر تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح 34، 60 اور 78 برس کی عمر میں سب سے زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔اگرچہ ماہرین اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں لیکن اس سے یہ ضرور معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آخر بعض مریضوں کے اندرونی اعضا مثلاً جگر وغیرہ دیگر اعضا کے مقابلے میں تیزی سے بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد و خواتین میں بڑھاپے کی رفتار یکساں نہیں ہوتی۔
بڑھاپے کو زحمت نہ سمجھئے،پرتگالی اور امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ بڑھاپے میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ دماغی صلاحیتیں بہتر بھی ہوتی ہیں۔یہ تحقیق 58 سے 98 سال کے 700 تائیوانی نژاد امریکیوں پر کی گئی جس سے معلوم ہوا کہ دماغ کی تین اہم صلاحیتیں نوجوانی اور جوانی کی نسبت بڑھاپے میں زیادہ بہتر ہوتی ہیں۔۔چوکنا پن (Alerting)، یعنی موصول شدہ اطلاعات/ معلومات کی طرف زیادہ دھیان اور توجہ کا ہونا۔۔رُخ بندی (Orientation)، یعنی دماغی وسائل (ارتکازِ توجہ) کو کسی خاص مقام یا ماحول کی طرف منتقل کرنے کی صلاحیت اور۔۔اختیاری ممانعت (Executive inhibition)، یعنی توجہ بٹانے والی غیر ضروری چیزوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ضروری چیز/ کام پر توجہ مرکوز رکھنا۔۔مثلاً اگر آپ کار ڈرائیو کرتے ہوئے سڑک پر جارہے ہیں تو دوسری گاڑیوں کے ساتھ ساتھ آپ پیدل چلنے والوں سے بھی ہوشیار رہتے ہیں، اور جب آپ کسی چوراہے یا ٹریفک سگنل کے قریب پہنچتے ہیں تو آپ اور بھی زیادہ چوکنے ہوجاتے ہیں۔اب اسی دوران اگر کوئی شخص اچانک ہی سڑک پر آجائے تو آپ کی توجہ فوراً اس پر منتقل ہوجاتی ہے اور آپ اپنی کار کی رفتار کم کرکے یا بریک لگا کر کوشش کرتے ہیں کہ اس سے نہ ٹکرائیں۔اسی طرح کار ڈرائیونگ کے دوران آپ اِدھر اُدھر اُڑتے ہوئے پرندوں اور سائن بورڈز/ بل بورڈز کو نظرانداز بھی کررہے ہوتے ہیں کیونکہ ڈرائیونگ کے نقطہ نگاہ سے یہ غیر ضروری طور پر توجہ بٹانے والی چیزیں ہیں۔ان تمام بزرگوں کی مختلف ذہنی آزمائشوں کے بعد معلوم ہوا کہ ادھیڑ عمری سے بڑھاپے تک صرف چوکنے پن کی صلاحیت کم ہوئی جبکہ 58 سے 78 سال کے بیشتر افراد میں رُخ بندی اور اختیاری ممانعت والی صلاحیتیں بہتر ہوتی دیکھی گئیں۔ البتہ تقریباً 80 سال کی عمر سے ان میں یہ دونوں صلاحیتیں بھی بتدریج کمزور پڑنے لگیں۔یہ تاثر عام ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ تمام ذہنی و جسمانی صلاحیتیں کم ہونے لگتی ہیں لیکن ریسرچ جرنل ”نیچر ہیومن بیہیویئر” کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ بعض معاملات میں ہمارا دماغ بہتر ہوتا ہے۔البتہ، عمر زیادہ بڑھنے پر یہ ذہنی صلاحیتیں بھی بالآخر زوال کا شکار ہوجاتی ہیں۔
اب ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ خواتین و حضرات خود کو کب بوڑھا سمجھیں؟؟ باباجی فرماتے ہیں مرد خود کو بوڑھا محسوس کرنے لگے تو سمجھ لے کہ وہ بوڑھا ہوگیا، خواتین کو جب دوسرے لوگ دیکھ کر بوڑھا سمجھنے لگے تو یہی وقت ہے ان کے ”آنٹی” ہونے کا۔۔ جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں انکل کہہ کر پکارنے لگیں تو تردد سے کام نہ لیں۔۔تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لئے سیٹی بجائیں، کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں۔ بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے تو اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں، یاتو آپ نے اپنے بچوں کی تربیت پر کافی دھیان دیا ہے یا پھر اپنی لائف انشورنس پر۔۔مردکبھی بوڑھا نہیں ہوتا، یہ کسی ایک بوڑھے کانہیں بلکہ جب سے یہ کائنات بنی ہے تب سے لے کر آج تک ہربوڑھے کا قول ہے۔۔ بوڑھا ہونا الگ چیز ہے، بوڑھا دکھائی دینا الگ۔۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں، اس کے لئے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ بڑھاپے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں،سوائے سیاست دان کے،کیوں کہ وہ کبھی سیٹ نہیں چھوڑتا۔۔اچھا خاندان ہو یا اچھی حکومت، ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔۔ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندا بالکل مندا ہوتا۔ بوڑھوں کو بندی اورخاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔۔عورتیں بھی بوڑھی ہوتی ہیں، مگر وہ اپنی عمر پر لگام ڈالے رکھتی ہیں، اسی لئے انہیں کہاجاتا ہے۔۔بوڑھی گھوڑی لال لگام۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ہے،اس میں آپ کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔۔جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔