تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ایک نئی تحقیق میں بڑھاپے پر مزید تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ عمررسیدگی کوئی مسلسل عمل نہیں بلکہ حیاتیاتی طور پر اس کے تین ادوار ہیں جنہیں آپ بڑھاپے کو بڑھانے والے ’گیئر‘ کہہ سکتے ہیں۔ 2019 میں کی گئی ایک طویل تحقیق میں خون کے 4000 مختلف ٹیسٹ کیے گئے ہیں جن سے معلومات ہوا ہے کہ حیاتیاتی بڑھاپے (بایولاجیکل ایجنگ) کا ظہور 34، 60 اور 78 سال کی عمر میں یک لخت ایک نیا روپ لیتا ہے۔ اس طرح بڑھاپے کی رفتار پوری عمر یکساں نہیں رہتی بلکہ اس میں تیزی اور تبدیلی رونما ہوتی ہے۔اس تحقیق سے بڑھاپے کے جسمانی اثرات، اعضا کے متاثر ہونے اور الزائیمر یا امراضِ قلب کو سمجھنے اور علاج میں مدد بھی حاصل ہوگی۔ اس مطالعے میں پروٹیومکس کا علم استعمال کیا گیا ہے جس کے تحت خون میں پروٹین کی مقدار اور معیار دیکھے جاتے ہیں۔معلوم ہوا کہ خون میں مختلف پروٹین کی مقدار سے حیاتیاتی عمررسیدگی کا بہتر اندازہ ممکن ہے۔ اس عمل میں خون میں پروٹین کی مقدار یا پروٹیوم کو دیکھا جاسکتا ہے جو بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ گچھوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں تو کبھی خاص شکل میں ڈھل جاتے ہیں، لیکن یہ عمر کے تین مختلف حصوں میں زیادہ ہوتا ہے جنہیں بڑھاپے کی تین لہریں کہا جاسکتا ہے۔اس عمل میں 18 سے 95 برس کے 4263 افراد کے خون کا پلازمہ لیا گیا اور ان میں 3000 مختلف قسم کے پروٹین دیکھے گئے۔ ان میں سے 1379 پروٹین عمر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں جو بڑھاپے کی ایک بہتر تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح 34، 60 اور 78 برس کی عمر میں سب سے زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔اگرچہ ماہرین اس کی وجہ بتانے سے قاصر ہیں لیکن اس سے یہ ضرور معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آخر بعض مریضوں کے اندرونی اعضا مثلاً جگر وغیرہ دیگر اعضا کے مقابلے میں تیزی سے بوڑھے کیوں ہوتے ہیں؟ اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرد و خواتین میں بڑھاپے کی رفتار یکساں نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ ہر بوڑھے انسان میں ایک بچہ چھپا ہوتا ہے۔۔ بچے تو ہوتے ہی شرارتی ہیں۔بچوں کا شرارتی ہونا دوسروں کے لیے تو بلائے جان ہوتا ہے لیکن اب سائنسدانوں نے خود بچوں کے لیے اس کا ایک سنگین نقصان بتا دیا ہے۔یونیورسٹی آف مشی گن کے سائنسدانوں نے 1ہزار سے زائد لوگوں پر کی گئی تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ شرارتی بچے جو زیادہ شور مچاتے اور زیادہ غصے و چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں انہیں درمیانی عمر میں پہنچ کر مالی مشکلات درپیش آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔اس تحقیق میں سائنسدانوں نے 1972ء اور 1973ء کے دوران پیدا ہونے والے ایک ہزار مردوخواتین کی زندگیوں کو سروے، انٹرویوز وغیرہ کے ذریعے ٹریک کیا۔ 45سال کی عمر تک ان کی زندگی کو ٹریک کرنے کے بعد سائنسدانوں نے نتائج مرتب کیے، جن میں معلوم ہوا کہ بچپن میں جن بچوں کو خود پر زیادہ اختیار نہیں ہوتا وہ آگے چل کر مالی معاملات کو بہتر طریقے سے منظم نہیں کر سکتے اور مالی مشکلات کا شکاررہتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر لی ریکمنڈ ریکرڈ کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق کے نتائج میں اس بات کے بھی واضح شواہد سامنے آئے کہ جن بچوں کو بچپن میں خود پر زیادہ کنٹرول تھا وہ ادھیڑ عمری میں جا کر دوسروں کی نسبت زیادہ کم عمر بھی دکھائی دیتے تھے اور ان کی صحت بھی ان سے بہتر تھی۔ہم نے 45سال کی عمر تک ان لوگوں کی زندگیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا اور ان کی جسمانی و ذہنی استعداد کار کا بھی جائزہ لیتے رہے جس میں معلوم ہوا کہ بچپن میں خود پر زیادہ کنٹرول رکھنے والے بچے 45سال کی عمر تک پہنچ کر دوسروں کی نسبت ہر حوالے سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ ماہرین کہتے ہیں آپ کے آس پاس کے حالات پر آپ کا اختیار صرف چند فیصد ہوتا ہے لیکن خوش رہنے کا اختیار آپ کے اپنے پاس ہے،خوش رہنا ایک آرٹ ہے۔اس آرٹ کو سکھانے والے ماہرین چند سائنسی تحقیق پر ثابت شدہ ٹپس بتاتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ دن میں ایک بار اپنی دستیاب نعمتیں شمار کر کے لکھ لیں۔۔ رات میں چھ سے آٹھ گھنٹے بھرپور نیند لیں اور دوپہر میں بیس سے تیس منٹ آرام ضرور کریں۔۔ہفتے میں کم از کم تین بار گھر کے سب افراد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔۔ہوسکے تو گھر کے اندر ایک گارڈن بنائیں دن کا کچھ وقت پودوں کے ساتھ گزاریں۔۔پانچ سے سات منٹ ہلکی ورزش کیجئے ورنہ واک ضرور کریں،جب بہت زیادہ پریشان ہوں تو پیدل چلنا شروع کردیں اور جب تک تھکاوٹ نہ ہو چلتے رہیں آپ دیکھئے گا آپ کا اسٹریس لیول بہت ہی زیادہ کم ہوجائے گا۔۔ دن میں کسی نہ کسی غریب رشتہ دار ہمسایہ کی مدد ضرور کریں۔۔ذ زرا سی اداسی آنے پر وضو کر لیں۔۔ اپنی پسند کی خوشبو لگائیں۔۔پانی زیادہ پئیں کم از کم تین لیٹر جب اداس ہوں تو دو گلاس پئیں۔۔ نو کمپلین ڈے یعنی شکایت کے بغیر دن منائیں،آج کسی سے کوئی شکایت نہیں کروں گا پھر دن بڑھاتے جائیں،نو کمپلین ویک،نو کمپلین منتھ۔۔گھر میں دفتر میں جدت ترازی کی مہم چلائیں،ہر روز ماحول میں کچھ تبدیلی کی کوشش کریں،گھر میں موجود سامان کی ترتیب بدلتے رہا کریں۔۔۔ خاندان، دوست احباب، رشتہ داروں کو فون کریں ان کے دکھ درد میں حوصلہ دیں اور خوشیوں پر کھل کر مبارکباد پیش کریں۔۔مہینے میں دو بار دعوت کریں، کبھی رشتے داروں کو، کبھی دوست احباب کو کبھی اپنے بچوں کے دوستوں کو دعوت پر بلائیں۔۔ لوگ کیا کہیں گے، یہ سوچنا بالکل چھوڑ دیں۔۔اپنی زندگی کا سب سے خوشگوار دن یاد کیجئے اور ایسا زندگی بھر ہر روز کیا کیجیئے،چھوٹی سے چھوٹی خوشی کو یاد کریں،یہ یادیں آپ کو سارا دن خوش رکھیں گی۔۔ سفر کریں یعنی اپنے ماحول کی یکسانیت سے نکلیں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی پر فضا مقامات پر جائیں کبھی جنگلوں کا کبھی پہاڑوں کا رخ کریں کبھی کوئی پرانا قلعہ دیکھنے جائیں کبھی قبرستان کی طرف نکل جائیں اور کچھ دیر وہاں گزاریں۔۔ اپنے دوستوں کے ساتھ کسی پارک ہوٹل میں جاکر ملیں اور اس ملاقات کا کوئی ایجنڈا نہیں ہونا چاہیئے بس یوں ہی آپس میں خوش گپیاں لگائیں۔۔اپنی زندگی گزارنے کے انداز کو بدلیں سونے اٹھنے بیٹھنے کے طریقہ کو بدلیں۔۔ سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے منظر کو دیکھیں۔ موسم کی تبدیلی کو محسوس کریں اس سے بھی آپ کو خوشی ملے گی۔۔۔کبھی بھی بغیر بھوک نہ کھائیں جب بھوک شدید لگے پھر کھانا کھائیں آپ کو اس سے بھی خوشی محسوس ہوگی۔ اور انشاء اللہ صحت بھی اچھی رہے گی۔۔ خالص اللہ کی رضا کے لیے روزہ رکھیں۔ اور افطار کے وقت اللہ کا شکر ادا کریں۔ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کریں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ صدقہ دیں اور سب سے آسان صدقہ مسکراہٹ ہے،ہلکی سی ایک مسکراہٹ تیز دھوپ میں بادل کے ٹکڑے کی طرح دل کو ترو تازہ کردیتی ہے، لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔