aik tabah saath | Imran Junior

بوڑھاپا

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،بوڑھاپا ویسے تو ایک زحمت ہی ہے، بندہ کسی کام کا نہیں رہتا، لیکن لگتا ہے امریکا میں بوڑھا ہونے کا مطلب ’’لکی‘‘ ہونا ہے۔۔اگر آپ بوڑھے ہیں اور امریکی ہیں تو پھر سمجھ جائیں کہ۔۔بوڑھے تو کام کے ہوتے ہیں۔۔امریکا میں گزشتہ دنوں دو عدد بوڑھوں کے درمیان اعصاب شکن الیکشن دیکھنے میں آیا، اس میں کامیاب وہ ہوا جو زیادہ بوڑھا تھا۔۔جی ہاں نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن امریکاکی تاریخ میں سب سے زیادہ بوڑھے صدر کہلائیں گے۔۔اور دلچسپ بات ووٹوں کے معاملے میں بھی انہوں نے سابقہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔۔امریکا وقت کی سپر پاور ہے۔وہ دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔ان کے سکے کی قدر ہماری معیشت کے اتار چڑھاؤ کو زیروزبر کردیتی ہے۔جو دنیا کی تہذیب بدل رہے ہیں۔گلوبل ورلڈ کے خوابوں میں رنگ بھر رہے ہیں،لیکن بوڑھوں کی قدرکررہے ہیں۔۔

ستتر سالہ جو بائیڈن اب امریکی قوم کا نیا امام ہے۔۔خوش قسمتی سے وہ ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں سماج بوڑھا ہونے نہیں دیتا۔۔ہمارے یہاں تو پچاس برس کی خاتون اور ساٹھ برس کا مرد ’’ویلا نکما‘‘ سمجھا جاتا ہے۔۔انہیں دیوار سے لگادیاجاتا ہے،نئی نسل کو بوڑھوں پر اعتماد اور اعتبار نہیں۔۔نوجوان نسل بوڑھوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے سے کتراتی ہے۔۔ کتنے مشورے ہم خاندان کے بزرگوں سے کرتے ہیں؟کب ہم فیصلوں کا اختیار ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ستر پچھتر کی عمر عبور کر چکے ہوں؟ہم برائے برکت انھیں برداشت کر بھی لیں مگر اپنے فیصلوں کا اختیار انھیں نہیں دیتے۔اپنے جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی اب بزرگوں کی رائے کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی کیوں کہ پرانے لوگ کہاں موجودہ نسل کے ’’ٹیسٹ‘‘ کو سمجھ سکتے ہیں؟؟ہم نے خاندان کے ادارے سے دانستہ نانی ،نانا اور دادی، دادا کے کردار کو کمزور کیا۔بچوں کو بوڑھوں سے اس لیے دور رکھاجاتا ہے کہ یہ تو چلتا پھرتا وائرس کی دکان ہے، مختلف بیماریوں کی آماجگاہ ہے،کہیں بچہ بھی بیمار نہ ہوجائے۔۔ہمارا سماج بوڑھوں کو اب شاید بوجھ سمجھنے لگا ہے، ہم نے وقت سے پہلے ہی انہیں محدود کردیا ہے۔۔انھیں محفلوں اور بازاروں میں لے جانا بند کردیاہے اور بہانہ ’’آرام‘‘ کا بنالیا ہے۔۔آپ کسی بیٹے سے پوچھیں کہ والد صاحب اب تقریبات میں نظر نہیں آتے؟ جواب ملے گا ان کی صحت اچھی نہیں رہتی۔۔خاندان کے بزرگوں کو ہسپتال کے سوا کہیں لے جانا بوجھل سا لگتا ہے۔خاندان کی تقریبات صرف نوجوانوں کا حق سمجھی جانے لگی ہیں کیوں کہ جن کے پیر قبر میں لٹکے ہوں انہیں تفریح سے کیا لینا دینا؟؟۔ہم اپنے بوڑھوں کو مصلے پر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بس وہ تسبیح پڑھتے رہیں اور ہمارے گھروں سے آفات و بلیات ٹلتی رہیں۔

جوبائیڈن اگر ہمارے معاشرے میں رہ رہا ہوتا تو کبھی صدارت کے الیکشن کا سوچتا بھی نہیں۔۔بچے اسے سمجھاتے،باباجانی، آپ کے پہلے جوڑوں کا درد ہے،کن چکروں میں پڑرہے ہیں، گھر میں رہیں، ٹی وی دیکھیں، اخبار پڑھیں۔۔دوائیاں وقت پر کھالیا کریں۔۔اور ہاں اگلے ہفتے ڈاکٹر کے پاس جاناہے، آپ کے ماہانہ چیک اپ ہے۔۔۔ہم بوڑھوں سے زیادہ ان کے سرہانے رکھی ادویات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ ان میں کوئی کمی نہ آجائے۔۔۔ہمارے معاشرے میں ریٹائرمنٹ کے بعد مرد کی زندگی ختم ہوکر رہ جاتی ہے جب کہ مغرب میں مرد کی اصل زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد شروع ہوتی ہے، وہ زندگی کھوجنے نکلتا ہے، خود کو فٹ رکھتا ہے اور خوب تفریح کرتا ہے۔۔اور یہاں ریٹائرڈ بندہ خود کو دھرتی پہ بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔۔آپ خود سوچیں، امریکا میں صدارت بوڑھے کو مل گئی اور یہاں ہم اپنے خاندان کی چھوٹی سی ریاست میں بزرگوں کو ’’گھس بیٹھیا‘‘اور ان کی رائے کوکنٹرول لائن کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔۔اپنے بزرگوں کو بااختیار بنائیے،کیوں کہ زندگی کے تجربات کا نچوڑ ٹیکنالوجی ہے نہ ذہانت۔۔

اب ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ خواتین و حضرات خود کو کب بوڑھا سمجھیں؟؟ باباجی فرماتے ہیں مرد خود کو بوڑھا محسوس کرنے لگے تو سمجھ لے کہ وہ بوڑھا ہوگیا، خواتین کو جب دوسرے لوگ دیکھ کر بوڑھا سمجھنے لگے تو یہی وقت ہے ان کے ’’آنٹی‘‘ ہونے کا۔۔ جب بچے آپ کو نانا، دادا کہہ کر اور حسین لڑکیاں انکل کہہ کر پکارنے لگیں تو تردد سے کام نہ لیں۔۔تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لیے سیٹی بجائیں، کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں۔ بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے تو اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں، یاتو آپ نے اپنے بچوں کی تربیت پر کافی دھیان دیا ہے یا پھر اپنی لائف انشورنس پر۔۔مردکبھی بوڑھا نہیں ہوتا، یہ کسی ایک بوڑھے کانہیں بلکہ جب سے یہ کائنات بنی ہے تب سے لے کر آج تک ہربوڑھے کا قول ہے۔۔ بوڑھا ہونا الگ چیز ہے، بوڑھا دکھائی دینا الگ۔۔ بوڑھا ہونا آسان کام نہیں، اس کے لیے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ بڑھاپے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں،سوائے سیاست دان کے،کیوں کہ وہ کبھی سیٹ نہیں چھوڑتا۔۔اچھا خاندان ہو یا اچھی حکومت، ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔۔ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندا بالکل مندا ہوتا۔ بوڑھوں کو بندی اورخاندانی منصوبہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔۔عورتیں بھی بوڑھی ہوتی ہیں، مگر وہ اپنی عمر پر لگام ڈالے رکھتی ہیں، اسی لیے انہیں کہاجاتا ہے۔۔بوڑھی گھوڑی لال لگام۔۔مغربی عورت اپنی عمر چھپاتی ہے نہ جسم۔۔لیکن ہمارے یہاں پینتالیس برس کی اداکارہ میرا آج بھی تئیس سال سے اوپر کی نہیں۔۔ اداکارہ ماہ نور نے رواں برس اپنی اٹھائیس ویں سالگرہ منائی، اس کی تاریخ پیدائش انتیس فروری کی ہے۔۔ دنیا میں سب سے آسان کام نانا، نانی یا دادا، دادی بننا ہے،اس میں آپ کو کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔۔جو کچھ کرنا ہو، آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔۔ بڑھاپے میں بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہوجاتا ہے۔۔بڑھاپا اتنا وفادار ہے کہ مرتے دم تک ساتھ نبھاتا ہے۔۔یہ کبھی پوچھ کرآتا ہے نہ دھکے دینے سے جاتا ہے۔۔بڑھاپا مغرب میں زندگی انجوائے اور ہمارے یہاں مرض انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھاجاتا ہے۔۔دانت جانے اور دانائی آنے لگتی ہے۔۔اولاد اور اعضا جواب دینے لگتے ہیں۔۔گھر کے کھانے اچھے لگنے لگتے ہیں۔۔جب اللہ،ڈاکٹر اور بیوی بہت زیادہ یاد آنے لگیں تو سمجھ جائیں کہ آپ بوڑھے ہوچکے۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خونی رشتے وہ ’’وٹامنز‘‘ ہیں جن کے بغیر جوانی تو گزرجاتی ہے لیکن بڑھاپا نہیں گزرتا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں