تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، پڑوسی ملک میں کچھ عرصے سے ساؤتھ کی فلموں کا راج ہے، جب کہ بالی وڈ میں ہر نئی فلم فلاپ ہوتی جارہی ہے، ساؤتھ کی فلمیں ہمیں اس لئے یاد آئیں کہ ان فلموں میں بوڑھے کو۔۔بوڑھااووو۔۔ کہا جاتا ہے۔۔ہندی ڈب میں ان ساؤتھ فلموں میں اپنے کلچر اورعلاقوں کو بھی لازمی ہائی لائٹ کیاجاتا ہے۔۔ ساؤتھ کی فلم میں ہیرو ہو یا ویلن، چاہے ارب پتی کیوں نہ ہوں، کیلے کے پتے پر چاول ڈال کرکھاتے ضرور کسی نہ کسی سین میں نظر آئیں گے۔۔ اسی طرح یہ لوگ جتنے بھی امیرکبیر ہوں، فون ان کے پاس نمبروں والا ہوگا، لیکن جب بھی کسی پولیس افسر، ہیرو یا ویلن کا موبائل بجے گا تو اس سے پہلے آئی فون کی مخصوص ٹون سننے میں آئے گی۔۔اسی طرح ان فلموں میں ارب پتی کوئی نہیں ہوتا، سو کروڑ،دوسو کروڑ، اسی طرح۔۔ دوہزارکروڑ، تین ہزار کروڑ وغیرہ کی باتیں ہوتی ہیں۔۔ چلیں پھر آج بوڑھوں کے حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والی نئی تحقیق سے آپ کو آگاہ کرتے چلیں۔۔
آسٹریلیا میں حال ہی میں ہوئی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ بوڑھے افراد جو غیر معمولی طور پر سست رفتاری سے چلتے ہیں، انہیں اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کا طبی معائنہ کرانا چاہیے۔ماہرین کی جانب سے کیے گئے مطالعے میں 65 سال سے زائد عمر کے تقریباً 17,000 افراد کو شامل کیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی جو ۔۔ شرکا تقریباً 5 فیصد یا اس سے بھی زیادہ دھیمی رفتار سے چلتے ہیں اور ان کی یادداشت سے متعلق بھی مسائل ہیں تو ان میں ذہنی مرض ڈیمنشیا کا سب سے زیادہ امکان تھا۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چلنے کی رفتار اور دماغی افعال کے درمیان تعلق دماغ کے دائیں hippocampus کے سکڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ہیپوکیمپس دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو سیکھنے، یاد رکھنے اور راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پچھلے مطالعات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایروبک ورزش جیسے چلنا، دوڑنا، تیراکی کرنا، سائیکل چلانا وغیرہ ہپپوکیمپس کو بڑا کر سکتا ہے اور یادداشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔۔ایک اور تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ بڑھاپے میں کی جانے والی غیر فعال سرگرمیاں بوڑھے افراد میں فالج کے خطرات کو 14 فیصد تک بڑھا دیتی ہیں، یعنی جسمانی مشقت اور سرگرمی نہ کرنے سے اس مرض کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔امریکا کی ایک یونیورسٹی میں تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو دن کے 13 گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ بیٹھے بیٹھے گزار دیتے ہیں ان کو، ان لوگوں کی نسبت جو 11 گھنٹوں سے کم کا عرصہ اس طرح سے گزارتے ہیں، فالج میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔اس کے برعکس روزانہ 25 منٹ کی معمولی سی ورزش کرنے سے فالج میں مبتلا ہونے کے امکانات میں 40 فیصد سے زیادہ کمی دیکھی گئی۔ آلسی پن ہماری شریانوں میں چربی بننے کا سبب بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں امراضِ قلب میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔جسمانی سرگرمیاں کولیسٹرول، فشارِ خون میں اور چربی میں کمی لا کر فالج کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
اگرچہ بزرگ افراد ہر معاملے میں ہمت دکھائیں تو یہ اچھی بات ہے لیکن اپنی صحت کے بارے میں حد سے زیادہ خود اعتمادی بسا اوقات خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔جامعہ ویانا اور برلن کے ہارٹی سکول کے سائنسدانوں کے مطابق یہ نصیحت جوان لوگوں کے لیے بھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اپنی صحت پر حد سے زیادہ اعتماد ایک طرح سے لاتعلقی کی وجہ بنتا ہے۔تحقیق میں یورپ کے 80 ہزار ایسے افراد کا جائزہ لیا ہے جن کی عمریں 50 سال سے اوپر تھی۔اگرچہ ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد میں اپنی صحت کے متعلق غلط خوش فہمی کچھ فوائد بھی دیتی ہے مثلاً ایسے افراد رہنما قسم کے ہوتے ہیں اور زیادہ رقم کماتے ہیں۔ لیکن چونکہ انہیں اپنی تندرستی پر اعتبارہوتا ہے تو وہ ورزش کم کرتے ہیں، غذائی احتیاط نہیں کرتے، سگریٹ اور شراب نوشی کے عادی ہوتے ہیں اور نیند کی پروا بھی نہیں کرتے۔ اسی لیے بزرگ افراد اکثر خود اعتمادی میں بیماریوں کی وجہ بننے والی علامات کو بھی نظر انداز کرسکتے ہیں۔ پھر تحقیق نے بتایا کہ جو لوگ صحت سے لاپروا ہوتے ہیں ان میں ڈاکٹروں کے پاس جانے کی شرح عام افراد کے مقابلے میں 21 فیصد زائد ہوتی ہے۔ماہرین نے 80 ہزار یورپی افراد کے ڈیٹابیس کا جائزہ لیا ہے جسے ’سروے آف ہیلتھ، ایجنگ (عمررسیدگی) اور ریٹائرمنٹ ان یورپ‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں 2006 سے 2013 کے درمیان شرکا سے کئی طرح کے سوالنامے بھرائے گئے تھے۔ کئی تجربات سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ بزرگ افراد کس طرح اپنی صحت کے متعلق درست آگہی، حد سے زیادہ خود اعتمادی یا پھر حد سے کم اعتماد رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ 79 فیصد افراد کو اپنی صحت اور جسمانی کیفیت کا درست اندازہ ہوتا ہے، تاہم 11 فیصد حد سے زیادہ خوش فہم قرار پائے اور بقیہ 10 فیصد اپنی صحت کے بارے میں زیادہ فکر مند نکلے۔ان میں سے ماہرین نے صحت کے بارے میں خوش فہمی یا حد سے زیادہ خود اعتمادی کو خود تندرستی اور زندگی کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔سائنسدان پہلی بار یہ معاملہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ لوگ 70 برس کی عمر کے بعد اچانک کمزور کیوں ہوجاتے ہیں۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے ان مخفی خلیوں کا پتہ چلانے پر کام شروع کردیا ہے، اس حوالے سے انہوں نے جینز میں ہونے والی تبدیلیوں کو دریافت کیا ہے، جس کے مطابق 70 برس کی عمر کے بعد خون بننے کے عمل میں ڈرامائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں نے اپنی تحقیق کے دوران خلیوں کے پروسس کی سطح کا جائزہ بھی لیا، جس سے پتہ چلا کہ کس طرح جینیاتی تبدیلیاں جو کہ خون کے اسٹم سیلز کے اندر پوری زندگی آہستگی کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہیں اور وہی اس کمزوری کا اصل سبب ہے۔اس پیشرفت سے بوڑھے افراد کے علاج کے لیے نیا طریقہ کار ممکن ہوسکے گا۔یہ تحقیق جرنل نیچر اسٹیٹس میں شائع ہوئی ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں ایک تھیوری اس بات پر زور دیتی ہے کہ سومیٹک میوٹیشنز خلیوں میں آہستہ آہستہ اس کی محفوظ صلاحیتوں میں کمی کا سبب بنتی ہے۔ واضح رہے کہ انسانوں میں سومیٹک میوٹیشن (حیاتیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی تبدیلیوں کا محرک سیل) میں پوری زندگی کے دوران جینیاتی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بھائی چارہ کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ کسی کو بھائی سمجھیں اور وہ آپ کو ’’چارہ‘‘۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔