تحریر: انور حسین سمرا، تحقیقاتی صحافی۔۔
جب میں نے صحافت میں قدم رکھا تو میری دوستی ایک سینئر افسر سے ہوئی وہ بہت پیار کرتے، راہنمائی فرماتے اور نصیحتیں بھی دیتے. ایک دن ان کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ انہوں نے موتی چور کے لڈو منگوائے، چائے بنوائی اور کہا کہ آج خوب گپ ہوگی. اگرچہ وہ شوگر کے مریض تھے لیکن لڈو کھائے اور ساتھ ہی انسولین لگائی. کہنے لگے لڈوں سے دل پشوری وی ہوگیا اور ان سے ہونے والے خطرے کا علاج وی. مجھے مخاطب کرکے فرمایا پتر میں آپ کو اپنے تجربے سے ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں عمل کرنا سکھی رہو گے. کہا ” بظاہر بڑے قد کے لوگ اندر سے بونے ہوتے ہیں اور عام قد کے لوگ بڑے دل کے مالک، سخی و وضعدار ہوتے ہیں” کسی کی ظاہری شان و شوکت، ٹھاٹھ باٹھ، رب ودبدبے سے مانوس نی ہونا یہ اندر سے بڑے کینہ پرور، کمینے.،کم ظرف اور اکثر نودولتیے ہوتے ہیں. سادا اور عام لوگوں سے دوستی کرنا یہ فرخ دل، سچے اور کھرے لوگ ہوتے ہیں. مزید کہا کہ یہ پست قد کی ورائٹی سیاستدانوں اور بابوؤں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔۔
پچھلے دنوں جب شوباز شریف اور ازادکشمیر کے وزیر اعظم کے درمیان ایک تقریب میں گھٹیا مکالمہ سنا تو بزرگ بہت یاد آئے. شوباز شریف نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو تقریب میں نہ بلا کر جس کمینگی کا مظاہرہ کیا اور آنے کے بعد سوال کرنے پر جیسے جھاڑپلائی وہ ان کے پست قد آور کم ظرفی کی اعلیٰ مثال تھی. ماضی میں میری ملاقات سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر جو نواز لیگ سے تھے سے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جب کپی تان بطور وزیراعظم ازادکشمیر میں ایک تقریب میں آئے تو انہوں نے کپی تان کو مشورہ دیا کہ سیاسی تلخیاں بلا کر بڑا دل کرکے تعمیر و ترقی کے لیے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملائیں. اس تجویز پر کپی تان نے بڑا غصہ کیا اور تقریب میں کہا کہ وہ چوروں اور ڈاکوؤں سے ہاتھ نہیں ملاسکتےاور بقیہ دور حکومت میں ازادکشمیر کے ساتھ ناروا سلوک جاری رکھا. ۔۔مجھے یادہے جب وفاق میں بے نظیر شہید کی اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومت تھی تو کبھی بھی نواز شریف نے بے نظیر کو پنجاب آنے پرخوش آمدید نہ کہا تھا. میں سوچتا ہوں اگر ہمارے سیاسی لیڈر اس قدر سیاسی مخالفت میں ذاتی کدورت، نفرت اور کج روی رکھتے ہیں تو یہ عوام کیسے ایک قوم بنے گی اور ملک کب ترقی کرے گا؟؟ عام عوام اور سیاسی ورکر ان سیاسی قیادت کی زندگی سے راہنمائی لینے پر فخر کرتے ہیں لیکن جب یہ سیاسی افراد اس قدر کم ظرف اور رویوں میں کمینےہونگے تو ان کی زندگیاں کیسے کسی کے لیے مشعل راہ ہونگی. کیسے معاشرے میں رواداری، مثبت سوچ اور بردباری کو فروغ ملے گا، کیسے عام آدمی مخالف کی بات کو برداشت کرے گا۔( انور حسین سمراء)۔۔