تحریر: عادیہ ناز
2015 میں جب اس چینل کا وجود عمل میں آیا تو جہاں میڈیا ورکرز کو اپنی چاندی ہوتی نظر آئی۔۔ وہیں میڈیا مالکان کی راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔۔ظاہر ہے جس چینل میں ایک نئے آنے والے کو تیس پینتیس سے اوپر تنخواہ دی جارہی ہو وہاں تجربہ کارلوگوں کی تو لاٹری نکل آئی تھی جس چینل میں ابتداء میں ہی ہائی فائی پیکج دیا جارہا ہو اس کے آنے سے تو یقینا ہر چینل کے مالکان کی نیندیں حرام ہونا ہی تھیں۔۔پھر ایسا ہوا کہ بول نے ہر بڑے چینل کا ہر بڑا اینکر اپنے نام کرالیا۔۔ پھر کیا تھا چینل آن ائیر بھی نہیں ہوا تھا کہ بند ہوگیا۔۔ بہت سے لوگ اس وقت بھی بے روزگار ہوئے مگر بے روزگار ہونے والے اینکرز بڑا نام تھے کہیں نہ کہیں فٹ ہوگئے۔۔۔
پھر صرف ایک سال کے بعد نومبر 2016 میں بول کی ٹرانسمیشن کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ اور چینل لاؤنچ ہوگیا۔پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا چینل میں ہزاروں کی تعداد میں ہر شعبے میں بھرتیاں کی گئیں۔اس دعوے کے ساتھ کے بول اپنے ایمپلائز کی تقدیر بدل دے گا۔۔بعد ازاں ایسا ہی ہوا بول نے اپنے ایمپلائز کی تقدیر واقع بدل دی۔شعیب شیخ عزم سے بھرپور تقریریں کرنے لگے جیسے کوئی قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو، بول نے یہی نہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ریجنل چینلز کی بنیاد رکھی اور ہزاروں ایمپلائز کو اچھے پیکجز کے ساتھ ہائر کیا۔۔ سنہرے خواب دکھا کر چاروں صوبوں سے لوگ کراچی ہیڈ آفس بھرتی کئے۔۔یاد رہے یہ وہ ماہر لوگ تھے جو مختلف شعبوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔۔بہت سے لوگ مختلف چینلز،اخبارات قور ریڈیو پر کامیاب اینکرز ،رپورٹرز, لکھاری اور آرجیز رہ چکے تھے، انہیں اس وعدے کے ساتھ ہائر کیا گیا کہ دو چارماہ میں آپ کی مہارت کو دیکھتے ہوئے آپ کے پسندیدہ شعبوں میں ٹرانسفر کردیا جائے گا، ماہانہ پرفارمنس دی جائے گی یہی نہیں سال میں دو گروتھس اور بونس دئیے جائیں گے بات یہیں ختم نہیں ہوتی وعدہ تو اوور ٹائم پے کرنے کا بھی ہوا۔ بتایا یہ گیا کہ ادارے میں ورکر مضبوط اور باس زرا سی نا انصافی کرنے پر کٹہرے میں کھڑا ہوگا ۔جسے خود عزت مآب جناب شعیب شیخ صاحب مانیٹر کریں گے۔غرض یہ کہ ایسا معلوم ہوا جیسے لندن کے کسی ادارے میں نوکری مل گئی ہو۔۔
پھر کیا تھا؟؟؟ادارے میں قدم رکھنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک الگ ہی دنیا بس رہی ہو۔ مگر ابتداء میں ہر ماہ سی ای او بول آڈیٹوریم اولا میں اپنے ورکرز سے خطاب کرکے انہیں سبز باغات دکھاتے رہے چند دنوں میں ہی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا ادارے میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، چمچہ مافیا سرگرم ہوگئی،جس نے جتنی زیادہ چاپلوسی کی اس نے اتنا بڑا عہدہ پایا۔ کام کرنے والوں سے دن رات گدھوں کی طرح کام لیا جاتا رہا پھر ایک وقت ایسا آیا شیخ صاحب گرفتار ہوگئے اور بول ایک بار پھر زوال کی طرف چل پڑا۔ فروری سے تنخواہوں کا سلسلہ بند ہوگیا بول کے تمام ورکرز نے اپنے سی ای او کے لئے سروائیو کیا خاص طور پر ریجنل ڈیپارٹ نے۔ اندرون خانہ خبریں موصول ہوتی رہیں کہ بول کو چلانے کے لئے بیورو کے لوگوں،اینکرز، سیکیورٹی عملے، کیفے اسٹاف اور ہاؤس کیپنگ اسٹاف کو تنخواہیں دی جاتی رہیں مگر ریجنل ڈیپارٹ کے لوگوں نے سفر کیا۔ تین ماہ تک بغیر کسی معاوضے کے کام کرتے رہے اس دوران بول انتظامیہ کی جانب سے تاریخ پہ تاریخ دی جاتی رہی مگر تنخواہ آنی تھی نہ آئی۔
وہ ادارہ جہاں نان پروفیشنلزم کی انتہا ہے جہاں کام کی قدر نہیں وہاں اپنے ان وفادار ورکرز کو بڑی کڑی سزا دی گئی ہونا تو یہ چاہئیے تھا شعیب شیخ جیل سے رہا ہوتے ہی ان ورکرز کا بطور خاص شکریہ ادا کرتے۔۔ مگرہوا اس کے برعکس۔۔۔۔ شیخ صاحب رہا ہوکر آئے اور اپنے ورکرز سے خطاب کرنے بول آڈیٹوریم پہنچے۔ ہر کوئی منتظر تھا کہ سی ای او احسان مند ہونگے یقیناً نوازیں گے۔۔اور باس نے نوازا میڈیا انڈسٹری میں ایک نیا لفظ رائٹ سائزنگ کے نام سے متعارف ہوا ۔۔اس رائٹ سائزنگ میں بول کے لوگوں کو اٹھا کر بول سے باہر پھینک دیا گیا، ریجنل ڈیپارٹ کے وہ لوگ جن کو بطور خاص مختلف صوبوں سے بلوایا گیا تھا وہ کراچی کی سڑکوں پر خوار ہوگئے۔۔ کہیں کسی کے بچے کو تعلیم سےمحروم ہونا پڑا، کہیں گھر سے بے گھر تو کہیں شہر بدر ہونا پڑا ایسے میں ایک ایک تنخواہ دے کر گیٹ پہ چھوڑ دیا گیا ۔۔ہر طرف آہیں سسکیاں بددعائیں تھیں۔سنا تھا شیخ صاحب اپنے وفاداروں کونوازتے ہیں۔ نوازا ضرور گیا مگر چند حواریوں کو۔۔ اس دوران پاک کے لوگ “پاز” ہوگئے وہ آج تک “پاز” ہی ہیں کیوں کہ میڈیا ہاؤسز میں اسی فیصد بول ایمپلائز کے لئے دروزے بند کردئیے گئے۔ کسی نے گول گپے بیچنا شروع کردئیے کسی نے سموسے پکوڑے۔۔ کوئی درزی بن گیا تو کوئی آج تک سڑکیں ہی ناپ رہا ہے۔۔۔
اور اب؟؟؟؟؟؟سنا ہے بول ڈبنگ کی نماز جنازہ بول ہیڈ آفس کے باہر ادا کردی گئی ۔۔ اپناحق مانگنےپر ایک بار پھر بول نے اپنی روایت کو برقرار رکھا۔ ڈبنگ ڈیپارٹمنٹ کو بند کرکے ڈھائی سو ایمپلائز کے لئے اپنے دروازے بند کردئیے ہیں۔2015میں فارغ ہونے والے تو بڑے نام تھے ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔۔ 2018میں فارغ ہونے والے یہ بے نام لوگ؟؟ انہیں کون ہاتھوں ہاتھ لے گا؟ کہاں ہیں تبدیلی کے دعوے دار حکمران؟؟ کہاں ارباب اختیار؟؟؟ اور کہاں ہیں صحافتی تنظیمیں؟؟؟
کیا یہ ہزاروں لوگ اسی طرح سڑکوں پر رلتے رہیں گے؟؟؟ ان کی آواز کون بنے گا؟؟ کون ان کے حالات کا ذمہ دار ہے؟؟ خدارا چیف جسٹس صاحب اس صورتحال کو آپ ہی دیکھ لیں؟؟ سنا ہے انصاف بانٹ رہے ہیں آپ۔۔(عادیہ ناز)۔۔