boliyan media ki zeenat

بولیاں، میڈیا کی زینت

تحریر: مظہر برلاس۔۔
لاہور اور کراچی میں مندی کا رجحان ہے جبکہ اسلام آباد کی منڈی میں بولیاں جاری ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر نئے نام سامنے آ رہے ہیں، ان بولیوں کو دیکھ کر قربانی کی عید یاد آ رہی ہے کیونکہ اس میں جانوروں کے ناموں کے ساتھ بولیاں میڈیا کی زینت بنتی ہیں، یہی حال آج کل نگراں وزیراعظم کے ناموں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس وقت تک کوئی ڈیڑھ سے دو درجن نام صرف نگران وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے ہیں، پتہ نہیں یہ کون سا پیر ہے جس نے ہر ایک کو پتر( بیٹا) دے رکھا ہے۔ جب وزرائے اعظم کے ناموں کی تعداد ڈیڑھ سےدو درجن کے لگ بھگ ہو تو پھر وزراء کی تعداد سینکڑوں میں چلی جاتی ہے، اس لئے آج کل اسلام آباد کی منڈی میں چار پانچ سو وزراء اور درجنوں وزرائے اعظم شیروانیاں اور واسکٹیں سلوا کر پھر رہے ہیں۔ چند ایک کو تو اتنا یقین ہے کہ انہوں نے اپنی وزارتوں سے متعلقہ کاریگروں سے گفتگو شروع کر رکھی ہے۔ کچھ اور دیہاڑی بازوں نے تو اپنے نگرانی دور کے لئے ٹھیکیداروں کی بکنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اقتدار کی یہ منڈی پتہ نہیں دھان منڈی ہے یا سوتر منڈی یا راولپنڈی میں لال کڑتی کے پاس بکرا منڈی ہے، ریٹ تو اسی طرح طے ہو رہے ہیں جیسے آڑھتی طے کرتے ہیں، ہر طرف بولیاں لگ رہی ہیں، بولیاں لگانے والوں کو نہ پاکستان کی فکر ہےاور نہ ہی پاکستانی عوام کی، لوگوں کو اقتدار چاہئے، کسی بھی قیمت پر اقتدار۔ پتہ نہیں منڈی میں اور کتنے دن رونق رہتی ہے، فی الحال تو بڑی عید کی آخری رات کا منظر پیش ہو رہا ہے۔ ذرا غور کیجئے! لوگ اقتدار کے حصول کیلئے اخلاقیات کے تمام اصولوں کو روندتے جا رہے ہیں۔ چند روزہ اقتدار کے حصول کیلئے ہر طرف بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ میڈیا میں پیش کی جانےوالی لسٹوں میں اپنا نام دے کر خوش ہونے والے افراد کے گرد مفاد پرستوں کے ٹولے جمع ہو چکے ہیں۔صرف اپنی فکر کرنے والے سیاستدانوں کے سامنے عوام کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ میدان کھیل کا ہو یا صحافت کا، کاروبار زندگی میں ہر طرف پریشانیوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر لوگوں کو انصاف ملتا تو معاشرے میں کہیں مایوسی نظر نہ آتی۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا ’’غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے‘‘۔ جن معاشروں میں انصاف زندہ رہتا ہے خوشحالی ان کا مقدر بن جاتی ہے اور جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں ظلم کی فصلیں جوان ہو جاتی ہیں۔ ظلم خوشحالی کو نگل جاتا ہے، ظلم اور نا انصافی غربت کے سائے کو گہرا بنا دیتے ہیں۔
کچھ روز پہلے ناصر اقبال خان نے لاہور میں چند صحافیوں کو سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملوایا۔ ثاقب نثار نے اپنے عہد میں پیش آنے والے کئی واقعات کا تذکرہ کیا، کئی ایسے مراحل کا ذکر ہوا جہاں صورتحال بہت نازک تھی، ثاقب نثار کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ دیانتداری اور دلیری سے فیصلے کئے، گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے والے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس روز اپنی والدہ کو بہت یاد کیا، انہوں نے بتایا کہ ’’میری ماں کا مجھے حکم تھا کہ بیٹا! بزدلی کہیں نہیں دکھانی دلیری دکھانی ہے، بہادر بن کے جینا ہے‘‘۔ یہاں بابے رحمتے کا ذکر بھی ہوا، ڈیم فنڈ کی باتیں بھی چھڑیں۔ سابق چیف جسٹس نے بتایا کہ ڈیم فنڈ کے 17ارب روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں پڑے ہیں، میں تو ڈیم کے سلسلے میں اس قدر سنجیدہ تھا کہ میں نے ججز کا ایک پینل بنایا تاکہ اس کی نگرانی ہو سکے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد میں کہاں تک پہرا دے سکتا تھا۔ ثاقب نثار نے پاکستانی سیاسی لیڈر شپ پر سیر حاصل گفتگو کی، انہوں نے ماضی اور حال کے آئینے میں سیاسی رہنماؤں کا جائزہ لیا اور پھر کہا بد قسمتی سے ہماری سیاسی لیڈر شپ میں نہ ویژن ہے نہ وزڈم۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس نے دوران گفتگو ایک بڑے پتے کی بات کی، انہوں نے کہا ’’کسی بھی جج کو مصلحت، مفاد اور خوف سے پاک ہونا چاہئے‘‘۔ باتوں کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن اگر پاکستان کی عدالتی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کہیں مصلحت نظر آتی ہے کہیں مفاد تو کہیں خوف۔ اس سلسلے میں ایک اور سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو بڑا یادگار ہے، وہ اپنے انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ’’ججز پر دباؤ ہوتا ہے، ججز کو تو نوکریاں بھی عزیز ہوتی ہیں‘‘۔ اب کس کی بات مانی جائے کیونکہ عدل کی عالمی رینکنگ میں پاکستان 130 نمبر پر ہے۔ اگر پاکستان میں انصاف کی صورتحال بہتر ہوتی تو یقیناً عالمی رینکنگ میں ہمارا نمبر بہتر ہوتا۔ اب تو پاکستان میں انسانی حقوق پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں اگر یہاں انصاف ہوتا تو ہمارے ہاں غربت اور افلاس کے سائے اس طرح نہ پھیلتے، نہ ہی ظلم اور نا انصافی کا جادو سر چڑھ کر بولتا۔ ہر طرف مافیاز کا راج ہے، اس راج میں انصاف کہیں گم ہو کے رہ گیا ہے،(بشکریہ جنگ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں