بول والوں کی “اچانک صحافت”
بلاگ : طیبہ مصطفیٰ زیدی
جنگ اور جیو گروپ کو اچانک سے ظالم اور دشمن صحافت کا ٹیکہ لگانے والےاور چھوڑ کر جانے والےاچانک صحافت کے علمبردار”عامر لیاقت حسین” اور اچانک صحافت کا سبق یاد آجانے والے”نذیر لغاری، فیصل عزیز خان اور عامر ضیاء” کی صحافت کو ہم سب کے پڑھنے والے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہ میں ضرور جاننا چاہوں گی کہ آپ میں کوئی شخص ایسا ہے جس نے صحافت کا چہرہ مسخ کرنے والے بول چینل اور اس ادارے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز صحافی حضرات، نذیر لغاری، عامر ضیاء اور عامر لیاقت حسین اور فیصل عزیز خان صاحب کی موجودگی میں ادارے میں ملازمین کے ساتھ ہونے والی بد عنوانیوں اور بد عہدیوں اور بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہو اور ان نام نہاد صحافی حضرات سے میسج یا کال یا پھر خصوصی ملاقات کرکے ادارے اور اس میں ہونے والی مکروہ سیاست اور صحافت کا تذکرہ کیا ہو؟
کیا کوئی آج سچ بولے گا اور ان صحافت کے علمبردار صحافی حضرات کی موجودگی میں ادارے میں ملازمین کے بنیادی حقوق سلب کرنے اور آزادی رائے کے حق کو چھیننے کی کوشش کئے جانے پر اپنی آواز بلند کرے گا۔ میں اس سے قبل بھی اس ادارے میں صحافت کے ساتھ کئے جانے والے مذاق اور عامر لیاقت کے پروگرام کے خلاف لکھ چکی ہوں اور”کسی کے تو ہوجائیں عامر لیاقت حسین” کے نام سے بلاگ لکھ چکی ہوں جبکہ میرے ایک قریبی ساتھی نے مجھے منع کیا کہ نوکری سے نکالی جاؤ گی، مت لکھو عامر لیاقت کے خلاف کچھ۔ لیکن میں اس وقت بھی ایک نڈر اور بے باک لڑکی تھی جو نوکری سے ملنے والی کچھ ہزار روپوں سے زیادہ حق اور سچ کی سربلندی کو مقدم جانتی تھی اور میں نے بلاگ لکھا اور بتایا کہ کس طرح صحافت کے نام پر پاکستان کے اداروں اور صحافی حضرات کا تمسخر اڑایا جارہا تھا اور نمبر ون صحافت کا دعویٰ کیا جارہا تھا۔
آپ کو یاد دلاتی چلوں جب پیمرا کی طرف سے چینل کو نوٹس بھیجا گیا تو اسے آزادی رائے کے خلاف مذموم کوشش اورر صحافت کا قتل قرار دیے جانے کی کوشش کی گئی کیونکہ ابصار عالم اور جنگ و جیو گروپ کو حکومت کا چمچہ دکھایا جانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی تھی اور اپنی غلطی پر نظر ثانی اور پروگرام کے کونٹینٹ کو درست کئے جانے کے بجائے انتظامیہ کی یہ کوشش تھی کہ جنگ اور جیو کو کیسے بدنام کیا جاسکتا ہے۔
کس نے کیا اچھا کیا اور کیا برا کیا اور کیوں کیا اس پر سوال ضرور اٹھانا چاہئے اور تفتیش بھی کی جانی چاہئے اور حکومت کے بھی اس کے رویئے اور اداروں کی صورتحال پر نظر ثانی کروانے کے لئے پروگرام کئے جانے چاہئیں لیکن یا کیا طریقہ ہے کہ آپ کو جو برا لگے آپ اس کے تضحیک شروع کردیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ اس ادارے یا اس شخص کی کیا خدمات ہیں؟
میں بول کے خلاف لکھ رہی ہوں اور ان صحافی حضرات کے رویوں پر بھی نالاں ہوں جو دوسروں کو صحافت کے اصول بتاتے اور سکھاتے بوڑھے ہوگئے لیکن آج بول کی صحافت اور ملازمین کے آزادی رائے اور ادارے میں کئے جانے والے ناروا سلوک پر خاموش تماشائی ہیں پراس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں ان کا تمسخر اڑاؤں ادارے سے ذاتی دشمنی کروں اور ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کروں یہ کسی مہذب شخص کو زیب نہیں دیتا اور نہ میں ایسا کروں گی میں صرف اس سوچ کے خلاف ہوں جو ادارے کو کھوکھلا کررہی ہے اور اس کی ساکھ خراب کررہی ہے لیکن ادارہ اور انتظامیہ اس سوچ اور اس رویئے کی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتی کیونکہ میں خود کام کرکے دیکھ چکی ہوں.
ادارہ چھوڑنے سے پہلے کئی ای میلز شعیب شیخ کو کیں اور سب حال احوال بتایا اور استعفیٰ دینے کی وجہ بھی ۔۔ میں نے بھی انتظامیہ، مالک اور خود وائس پریزیڈنٹ کے عہدے پر فائز عامر ضیاء سے خصوصی ملاقات کی اور درخواست کی کہ میری کلیئرنس نہیں کی جارہی اور نہ ہی ایچ آر کچھ بتا رہا ہے جبکہ میں نے خود ادستعفیٰ دیا ہے میں صرف آپ کے پاس اس لئے آئی ہوں کہ آپ پہلے بھی ساری صورتحال سے واقفیت رکھتے ہیں، یہ سب کیوں ہورہا ہے تو مجھ سے بڑی عاجزی سے فرمانے لگے آپ پریشان نہ ہوں اور کوئی حکم؟ آپ کا مطالبہ جائز ہے اور آپ کے ڈیوز کلیئر کئے جانے چاہئیں میں ضرور اس حوالے سے بات کروں گا۔
اس بات کو بھی مہینہ گزر گیا اور جب دوبارہ رابطہ کیا تو فرمایا”ول پاس یور میسج ٹو دا ایچ آر اگین”،مجھے اس جملے پر اتنا تعجب ہوا کہ ایک مہینے بعد رابطے پر مجھے یہ کہا جارہا ہے اس پر میں نے جواب دیا کہ” اب میں کوئی کلیئرنس نہیں چاہتی جب آپ جیسے نام نہاد صحافی کو انتظامیہ خاطر میں نہیں لا رہی تو آب سوچ سکتے ہوں گے ایک عام ملازم سے بول کے ایچ آر کا کیا انداز ہوگا اور انہیں یہ بھی بتایا کہ اب میں چپ نہیں رہوں گی اور لکھوں گی اور سب کو داستان بول سناؤں گی۔
جیو اور جنگ گروپ سے کھا کما کر نام کمانے والے آج کیوں جنگ اور جیو کو برا بھلا کہ رہے ہیں؟ کیا اگر جنگ یا جیو جھوٹی خبریں چھاپ رہا تھا،جعلسازیاں کر رہا تھا تویہی صحافی اس وقت اس ادارے کے خلاف کیوں نہ کچھ بولے؟ کیوں لب کشائی نہ کی؟ ان صحافی حضرات کی صحافتی غیرت کہاں گئی ہوئی تھی؟ اب اچانک بول سے دوگنی تگنی تنخواہ ملنے کے بعد ساری جعلسازیاں یاد آگئیں ساری منافقت یاد آگئی اور ساری ملک سے وفاداری اور قوم سے محبت کا چشمہ پھوٹ نکلا؟ کیوں؟ ابھی کچھ ہی دن پہلے میں نے نذیر لغاری صاحب کو سنا وہ جنگ اخبار میں قطری شہزادے کے انٹرویو پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے اور فرما رہے تھے”نہ لینے والے نے انٹرویو لیا، نہ دینے والے نے انٹرویو دیا اور جنگ گروپ نے جھوٹی خبر چھاپ دی” اوراس کے بعد فرمانے لگے”ہمارے زمانے میں بھی جعلسازیاں ہوتیں تھیں اور جھوٹی خبریں چھپتی تھیں۔ پھر کیا ہوا میرا دماغ نذیر لغاری صاحب کے اس ایک جملے پر پوری رات سوچتا رہا اور میں اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر جنگ اور جیو بدعنوانی اور غداری جیسے سنگین جرم کا مرتکب ہوا تھا تو کیوں نذیر لغاری، عامر لیاقت اور فیصل عزیز خان ادارے سے کھاتے کماتے رہے؟یہ اچانک صحافت کیسے جاگ گئی اور بول کا بول بالا کرنے لگے،یہ معاملہ صحافت سے نہیں بھائیو پیٹ سے جڑا ہے،جہاں مال ملا صحافت بھاگ نکلی اوراسی کو کہتے ہیں”اچانک صحافت” اور صحافت کی اخلاقیات سے اچانک روبرو ہونے والے ایسی ہی صحافت کا بول بالا (نوٹ: نمبر ون) کرنے کی کوشش میں ہیں۔(طیبہ مصطفیٰ زیدی)۔۔۔
(بلاگر کے خیالات اور تحریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں،اگر آپ اس تحریر سے اختلاف کرتے ہیں تو اپناموقف ہمیں بھیج سکتے ہیں ، ہم اسے بھی لازمی جگہ دیں گے۔۔علی عمران جونیئر)