تحریر : سدرہ ڈار
اگست 2015 میں بول کی عظیم الشان عمارت کے گراونڈ فلور پر جہاں کراچی بیورو ہوا کرتا تھا وہاں اس ادارے کے کرتا دھرتاؤں نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ان میں وہ لوگ بھی تھے جو مئی سے تنخواہوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو دو ہفتہ قبل اپنے پرانے اداروں کی جانب سے نوکری کی آخری آفر کو ان کرتا دھرتاوں کے یہ کہنے پر ٹھکرا چکے تھے کہ منع کردو سب ٹھیک ہونے والا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اپنے کام کی وجہ سے پوری مارکیٹ میں مشہور تھے لیکن جن اداروں سے پہلے وابستہ تھے وہاں ان کی قدرو قیمت کا احساس اس لئے نہیں کیا جا رہا تھا کہ میڈیا میں کوئی نیا چینل سامنے نہیں آیا تھا۔ سو اس ہال میں وہ سب تھے جو احتجاج میں سامنے رہے اور باقاعدگی سے دفتر آتے رہے۔
ایک عجیب سا سناٹا اور بے چینی تھی ، کوئی سرگوشی کر رہا تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے جو آٹھویں منزل سے پہلی منزل تک کے اسٹاف کو اکھٹا کر لیا گیا، تو کوئی یہ اندازے لگا رہا تھا کہ اب شاید چار ماہ کے واجبات ادا کرنے کی خبر سنائی جائے گی۔ ایسی میٹنگ آئے روز ہوا کرتی تھیں اور میں سب سے پیچھے اپنی نشست پر بیٹھے جھوٹی تسلیاں اور دعوے سن کر میٹنگ برخاست ہونے پر کرسی موڑتی اور آن لائن خبریں پڑھنا شروع کر دیتی۔ میرے تمام وہ اساتذہ کیمرا مین ایک ایک کر کے آتے کوئی اپنا دکھ سناتا کوئی آہستہ سے بتاتا کہ اسکی کوشش بارآور ثابت ہورہی ہے وہ جلد یہاں سے چلا جائے گا۔ جن کا ہاتھ پکڑ کر میں نے اس میڈیا کے سمندر میں تیرنا سیکھا تھا آج میں ان کی نظر میں اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ وہ اپنے دکھ سکھ مجھ سے ایسے کرنے باری باری آتے کہ جیسے میں انکی کوئی بزرگ یا وہ بڑی بہن ہوں جس کے ساری روداد کے آخر میں بولے جانے والے تسلی کے دو بول ان کے درد کو کم کردیں گے۔ ہم اس وقت میں بھی ہنستے تھے۔ اچھے وقت کا انتظار کرتے تھے۔ سب کو محسوس ہوا کہ اچھے وقت کی کوئی خبر آنے والی ہے تب ہی یہ نشست بلائی گئی ہے۔
طویل انتظار کے بعد سامنے کی تین کرسیوں پر کرتا دھرتا جن کے نام اور اشارے پر سب ابھی بھی اس ادارے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ادھر ادھر کی باتیں، مثالیں دینے کے بعد اصل بات کی جانب آئے اور کہا کہ ” آج سے آپ آزاد ہیں اگر آپ یہ ادارہ چھوڑ کر کہیں جانا چاہتے ہیں تو جاسکتے ہیں “۔ اس جملے کے بعد ایک سناٹا چھا گیا لیکن یہ سناٹا میں نے توڑا ۔۔ کیسے؟ کوئی طریقہ بتائیں گے آپ؟ آپ نے ہم سب کا حال ایسے کردیا ہے کہ جیسے ایک پرندے کے پر کاٹ دئیے جائیں او ر اسے ایک خوبصورت سے پنجرے میں قید کرنے کے بعد دروازہ کھول دیا جائے کہ جاو اڑ جاو تم پر کوئی پابندی نہیں۔ لہجہ سخت تھا، آواز میں گرج تھی بھلا کیسے کوئی بڑا اپنے آگے ایک کل کی رپورٹر کو یوں بولتا دیکھ سکتا تھا۔ میرے پیچھے کھڑے تمام کیمرامین مجھے آوازیں دینے لگے کہ میں مزید تلخ نہ ہوں ۔ مجھے بھی سخت لہجے میں جواب ملا کہ صرف آپ نہیں کئی سو ملازمین اس چینل پر لگنے والی پابندیوں کے سبب تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ لیکن میرے ساتھی جانتے تھے کہ میں نے یہ سب کن کے لئے کہا تھا۔ اسکے اگلے روز سے میں دفتر نہیں گئی کیونکہ پرواز کے لئے مجھے نئے پر نکلنے کا انتظار تھا۔
مجھ سمیت دس افراد جن کو میں جانتی ہوں ان کے واجبات پچھلے برس بول نے ادا کئے لیکن پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ بول نے ری لاچنگ پر پھر سے بڑے نام اپنے چینل کا حصہ بنائے، ان میں اداکار سمیت سیزن میں مذہبی اسکالر، یوم آزادی پر سرٹیفائیڈ محب وطن اور عام دنوں میں ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرے گا جیسی خصوصیات شامل رکھنے والی شخصیت کو بھی شامل کیا گیا یقینا وہ مفت میں کام کرنے نہیں آئے ہوں گے ۔ ایک بار پھر سے چینل کو ایسے بھرا گیا جیسے آخری بس کو یہ کہہ کر بھرا جائے کہ چڑھتے جاو پیچھے کوئی بس نہیں۔ پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے رپورٹر، پروڈیو سر پر آئی ٹی ایکسپرٹ بٹھا دئیے گئے۔ جن کو صحافت کی کوئی سمجھ بوجھ نہ تھی وہ ان صحافیوں کا آئے روز استحصال کرتے انھیں بے عزت کرتے۔ ایسے وقت میں زیادہ تر لوگوں نے دوبارہ بول جانا اس لئے پسند کیا کہ وہ اگست 2015 سے کہیں بھی کام نہیں کر رہے تھے اور کچھ ایسے تھے جنھیں یہ محسوس ہوا کہ شاید اس بار کچھ بہتر ہونے جارہا ہے سو و ہ دوبارہ اپنی کشتیاں جلا کر چل دئیے۔
پرانے اداروں میں تاخیر سے تنخواوں کی ادائیگی، پرو موشن کا نہ ہونا سب کو 2015 میں بول کی جانب لے جا چکا تھا ۔ جب بول نے مارکیٹ سے اچھے لوگ اپنے ادارے میں شامل کئے تو تمام میڈیا چینلز کو ہوش آیا اور انھوں نے اپنا قبلہ درست کرنے کی بھی ٹھانی۔ لیکن افسوس جن کو ہدف بنا کر بول نے بڑے بول بولے تھے آج وہ ان سب پر سبقت لے جا چکا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اگر کراچی میں پانی کی قلت کا سامنا ہے تو ہائیدرینٹ کو پانی کہاں سے فراہم کیا جا رہا ہے؟ جو ٹینکر کے ذریعے ہم ہی کو بیچا جا رہا ہے۔ یہی سوال بول کے لئے بھی کیا جاتا ہے جہاں سوٹڈ بوٹڈ اینکرز اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان لوگ آج بھی پروگرام کر رہے ہیں لیکن ان کی ورک فورس ابھی بھی تنخواہوں سے محروم ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز میں بول والاز دہائی دے رہے ہیں کہ انھیں فائر کیا گیا، واجبات ادا نہیں کئے گئے۔ وہ قرض دار ہوگئے ان کے پاس کھانے کو پیسے نہیں تو بول کے اتنے دعوے ا ور وعدے اب تک تواتر سے کیوں سامنے آ رہے ہیں؟
وہ سیٹھ جن کے خلاف آپ میدان میں اترے تھے آج اسی مافیا کے گاڈ فادر آپ نہیں بن گئے؟ آپ کے ادارے سے مٹھی بھر لوگ آج کیا سے کیا بن گئے لیکن انھوں نے اپنی کامیابی کا جو سفر لوگوں کے خوابوں، ارمانوں، ضروریات اور خواہشات کے سینے پر رکھ کر کیا ہے کیا وہ ابد تک قائم رہے گا؟ ادارہ اپنے پروگراموں میں پروپیگنڈا، الزام تراشی، نفرت انگریزی کو پھیلانے والوں کو تو پر تعیش گاڑیاں، مراعات اور تنخواہیں دے سکتا ہے لیکن چند ہزار کمانے والوں کو اس لئے نہیں دے سکتا کہ اس کے نزدیک ا ن ورکرز کی حیثیت شاید کیڑے مکوڑوں جیسی ہے۔ اس ادارے نے پہلے ہی روز سے خود کو نمبر ون کہا اور لوگوں کے لائف اسٹائل تبدیل کرنے کا سب سے بڑا دعوی کیا اور یہی ایک ایسا دعوی تھا جو پورا ہوا۔
ایک کیمرامین بے روز گار ہوا تو اسے بول سے وفا داری نبھانے کی یہ سزا ملی کہ کہیں نوکری نہ ملی اس نے گھر کے باہر ایک ٹھیلا لگا لیا۔ ایک کیمرامین انتہائی کم اجرت پر ایک چھوٹے سے چینل میں کام کرنے لگا، ایک کی بیوی کینسر کی مریضہ تھی صرف اس بات کی بنا پر اسے واپس پرانے ادارے میں نوکری دی گئی کہ بیمار بیوی کا علاج نہ سہی گھر کا کچن تو چل جائے گا، کئی پروڈیوسر جن کے گھر کرائے کے تھے ان پر قرضہ ہوا آج وہ کسی نہ کسی ادارے میں نوکری پر تو لگ گئے لیکن جو بچایا تھا وہ سب خرچ کرچکے، کئی این ایل ای جن پر گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے وہ اب فری لانس کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اب بھی بےروز گار ہیں یا پھر جو بول کا دوبارہ حصہ بنے اب سوشل میڈیا پر مدد کی درخواست کر رہے ہیں کیونکہ ان کا لائف اسٹائل تبدیل ہوگیا ۔
میں نے ایک اچھی نوکری ہونے کے باوجود یہ کیوں لکھا؟ کیا مجھے میڈیا میں نہیں رہنا؟ کیا مجھے اپنے مستقبل کی پرواہ نہیں؟ کیا میں ترقی نہیں کرنا چاہتی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آپ کو سچ بولنے سے اور اپنے مجبور ساتھیوں کے لئے آواز اٹھانے سے ہمیشہ روکتے رہیں گے۔ لیکن میرا موقف ہے اگر آج آپ اپنے ساتھیوں کی مشکلات اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر خاموش ہیں تو یاد رکھیئے کل آپ کے لئے بھی خاموشی ہوگی۔ خدارا اب بڑے بول بولنے اور ان الزامات سے باہر آئیں کہ فلاں چینل یہ کرتا ہے وہ کرتا ہے اپنے گریبان میں جھانکئے کہ آپ نے کیا کیا؟ آپ نے کیا کیا کر دیا؟ اور آپ اب کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں کے مستقبل او ر ایک بہتر زندگی کی خواہش رکھنے کی امید سے مت کھیلئے ۔ کس کی آہ کب لگ جائے کوئی نہیں جانتا۔