bol news ke jabri bartaraf mulazimeen ki bahali ka mutaalba

بول ملازم کی کہانی اپنی زبانی۔۔

تحریر: محمد سمیع شہزاد۔۔

میرے دل عزیز عمران جونئیر بھائی جان اور عمران جونئیر ڈاٹ کام کے چاہنے والے تمام دوستوں کو السلام وعلیکم ۔۔۔

عید کی خوشیاں منانے کے لئے گھر گھر تیاریاں جاری ہیں ہم صحافیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی یہی ہوتی ہے کہ  تنخواہیں وقت پر یا تاخیر سے بھی ملیں تو کم از کم مل ہی جائے ، میں نے بھی تنخواہوں کے معاملے میں بدنام زمانہ ادارے ( بول ) میں زندگی کے 8 سال گزارے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے مگر دل لگا کر ہمیشہ کام کیا جب بھی ادارہ چھوڑنا چاہا تو ادارے کے لوگوں نے روکا اور تھوڑی بہت تنخوا ہ کے اضافے پر میں رک گیا، مگر گزشتہ سال بول کی نئی انتظامیہ اور مالکان کی جانب سے جبری برطرفیوں کا سلسلہ زوروں سے جاری تھا اور تمام بول والے پریشان تھے جس کو جہاں نوکری مل رہی تھی وہ وہاں جارہا تھا، عید الاضحی سے 15 روز قبل میری نئی نوکری اس شرط پر ہوگئی کے مجھے فوری طور پر جوائن کرنا ہوگا میں ان دنوں بول میں پروگرام بیوپار کا ریسرچر تھا اور عامر ضیا صاحب نیوز ڈائیریکٹر میں نے حالات کو دیکھتے ہوئے 15 دن کا ٹائم لے کو وہ نیا نیوز چینل جوائن کرلیا جو کہ کچھ دنوں بعد بول میں ہی منتقل ہوگیا ، مگر ہم صحافیوں کو ہمیشہ ایک مہینہ تاخیر سے تنخواہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہم اگر کسی دوسرے ادارے کو جوائن کرلیں تو ہماری تنخواہ بلا وجہ روک لی جائے جو قانونی طور پر اور انسانیت کے ناطے بھی غلط ہے کچھ ایسے حالات میں، میں بھی گرفتار تھا کیونکہ میری مئی کی تنخواہ آنا باقی تھی اور عید الاضحی میں چند دن باقی تھے ، میرے نئے چینل جوائن کرنے کی خبر میرے ہی ساتھ کام کرنے والے کچھ لوگوں کو پتا چل گئی وہ کہاوت ہے نا ( اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں) ان اپنوں نے بھی عامر ضیا صاحب سے وفاداری کا حق ادا کیا اور نمبر بڑھانے کے چکر میں فوری مخبری کردی ، عید الاضحی سے ایک روز قبل میری تنخوا ہ اس جواز پر سچے مسلمان بھائیوں نے روک  لی کہ  میں نے دوسرا چینل جوائن کیا ہوا ہے اور بتایا نہیں ہے حالانکہ میں نے پہلے دن ہی اپنے ایڈ ہاک پروگرامنگ ہیڈ کو یہ بات بتادی تھی کی میں نوٹس پیریڈ دینا چاہتا ہوں میرا کہیں اور ہوگیا ہے، مگر بول میں اس وقت کوئی پرسان حال نہیں تھا سب لاوارث چل رہا تھا، عامر ضیا صاحب خود نوٹس پیریڈ پر چل رہے تھے ، ایچ آر ہیڈ بھی فائر ہوچکے تھے، تنخواہیں تاخیر کا شکار تھیں ، پی ایف فنڈ ، اور ای او بی فنڈ اتنے سال سے باقاعدہ کٹ رہا تھا مگر کہاں گیا آج تک کچھ نہیں پتا۔ میری تنخوا ہ رکی تو میں چاند رات کو عامر ضیا صاحب کے پاس گیا سارے داستان سنائی انھوں نے کہا آپ کے اپنے ساتھیوں نے غلط بیانی کری آپ کے خلاف آپ کی تنخوا ہ عید کے بعد مل جائے گی ، اللہ حوالے جیسے تیسے میں نے عید گزاری قربانی کا فرض بھی ادا نہیں کرسکا۔ عید گزرنے کے بعد جب گیا تو عامر ضیاء صاحب نے فرمایا میں نے تو ادارہ چھوڑ دیا ہے مگر اب شاہد جاوید صاحب سے میں آپ کو ملوادیتا ہوں وہ آپ کی تنخواہ  دے دیں گے یہاں ایک بات اور بتانا چاہوں گا ہم دو لوگ تھے جنھوں نے ایک ساتھ بول چھوڑا تھا اور ہم دونوں کی ہی تنخواہ صحافت کے نام نہاد علمبرداروں نے عید سے ایک روز قبل روک لی تھی جو کہ پہلے ہی تاخیر سے آرہی تھی، بہرحال شاہد جاوید صاحب نے ہم دونوں کی پوری داستان سنی اور کہا دیکھیں میں تو ابھی ابھی ادارے میں آیا ہوں مگر میں آپ کا مسئلہ ضرور حل کرائونگا، کچھ روز بعد بول کے نئے ایچ آر منیجر صاحب آگئے جنھوں نے ہم سے طویل ملاقات کی اور بہت ہی بلند و بانگ  دعوے کئے اور کہا آپ مجھے اپنا بول کا آئی ڈی کارڈ اور ایک درخواست لکھ دیں انشاللہ میرا وعدہ ہے ایک ماہ کے اندر آپ لوگ کی تنخواہیں دلوادونگا اور نہ دلوا سکا تو اپنی جیب سے ادا کرونگا ، دن گزرے ، ہفتے گزرے ، مہینے گزرے ، دلاسے پر دلاسے اور تاریخ پر تاریخ ملتی گئی مگر ہم بھی ڈھیٹ بن کر مسلسل رابطے کرتے رہے اور شاہد جاوید صاحب اور ایچ آر موصوف کے چکر لگاتے رہے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے اس سارے معاملے کو 10 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا اس عید الفطر سے قبل بھی ہم نے شاہد جاوید اور موصوف ایچ آر ہیڈ شفقت صاحب سے رابطہ کیا مگر دونوں کی جانب سے تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا ، اس ساری کہانی کا مقصد بس یہی ہے کہ ناجانے کتنے ہم جیسے اور لوگ ہیں جو چند ہزار تنخواہوں کے لئے زلیل و خوار ہوتے ہیں آج میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ میں آج بات بول مالکان ، بول مینجمنٹ سے اپنی تنخواہ نہیں مانگوں گا مگر بروز حشر اپنا حساب ضرور لونگا ۔۔ان جیسے جھوٹے بے حس مالکان رمضان ٹرانسمشن میں بہت دین کی باتیں کرتے ہیں مگر دوسروں کا حق کھانا ثواب سمجھتے ہیں نا تو میں نے اپنا پی ایف فنڈ مانگا تھا اور نا ہی کوئی ایکسٹرا اماؤنٹ ڈیڑھ ماہ کام کیا تھا میرا مطالبہ تھا بس ایک ماہ کی تنخواہ ہمیں دے دیں، مگر اب میں مانگ مانگ کر تھک گیا اتنا مانگنے سے تو شائد بھیک بھی مل جاتی ، ہمارا معاملہ بول کی پوری انتظامیہ کی نالج میں تھا ،میں نے خدا کی قسم 27ویں شب کو ان تمام عناصر کو دل سے بد دعائیں دی ہیں جنھوں نے ہماری تنخواہیں کھائیں اور آج اعلانیہ طور پر معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، میرا ماننا ہے نا تو کفن میں جیب ہوتی ہے اور نا ہی قبر میں بینک اکاؤنٹ انشاللہ اللہ ان تمام کے آگے ضرور لائے جن لوگوں نے عید سے ایک روز قبل ہم دونوں کی تنخواہیں روکنے میں کردار ادا کیا ، اور دیگر لوگوں سے بھی میں یہی گزارش کرونگا احتجاج ، کورٹ کیس وغیرہ کے بجائے بس اب معاملات اللہ پر چھوڑ دیں ، یہ بہت بے حس لوگ ہیں ان کا حساب بے شک قیامت میں ہی ہوگا۔۔(محمدسمیع شہزاد)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں