تحریر: زاہد حسین
مختلف دوستوں کی پوسٹیں نظر سے گزر رہی ہیں، جن میں پورے طمطراق سے ایک جھوٹ بولا جارہا ہے، اور وہ جھوٹ ہے، “بول انٹرٹینمنٹ لانچ کردیا گیا. ” اس ضمن میں مجھے رواں برس 22 مئی کی وہ رات یاد ہے، باقی بول والاز کو بھی یقیناً یاد ہوگا، جب میں، سلمان قریشی، سدرہ، فیضان اور دیگر دوست پی سی آر میں بیٹھے تھے اور اینکر شعیب بھائی اسٹوڈیو میں کیمرا کے اسٹینڈ بائی بیٹھے ہوئے تھے۔ دن دو بجے سے شروع کی جانے والی آج کے پروگرام کی تیاری کو اب اپلائی کیا جانا تھا۔ طے شدہ رول کے مطابق پی سی آر اس وقت ایم سی آر کی جانب سے کاؤنٹ ڈاؤن کے انتظار میں تھا جبکہ شعیب بھائی پی سی آر سے “کیو” کی آواز کے منتظر تھے۔ پروگرام کی ٹیم اور اینکر کے ساتھ ساتھ پروگرام کے مہمانان بھی اپنی پوری صلاحیتیں مجتمع کرکے موقع ملنے کی تاک میں تھے کہ کب وہ اپنے مخالفین کے بارے میں حقائق کو آن ائیر بیان کریں گے۔ یہ وہی دن تھا جب سلمان قریشی کو کان میں بتایا گیا تھا کہ مصطفیٰ بھائی کو کسی اور سیٹ پر بھیجا جارہا ہے اور وہ مصطفیٰ کی جگہ سنبھالے گا۔ اچانک فلور پر ایک ہلچل سی محسوس کی جارہی تھی اور کسی تبدیلی کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہوچکی تھیں۔ پروگرام “ٹی ایس آر” یعنی دی اسپیشل رپورٹ وِد شعیب شروع ہوا چاہتا تھا، جوکہ اس سے چند روز قبل تک دی اسپیشل رپورٹ وِد مدثر اقبال کے نام سے آن ائیر کیا جاتا تھا۔ اسٹوڈیو میں اینکر شعیب بھائی نے گھڑی دیکھی۔ پروگرام شروع ہونے میں ایک منٹ باقی رہ گیا تھا۔ شعیب نے تحقیقی ٹیم کے فراہم کردہ مواد کے صفحات کو حتمی ترتیب دی اور اپنی ٹائی درست کی۔ دوسری جانب اینکر کے ساتھ بیٹھے مہمان نے اپنا موبائل سائلنٹ موڈ پر، سیٹ کرلیا اور اُدھر پی سی آر کی ٹیم نے ایم سی آر کو وقت بتایا۔ ایم سی آر سے “صبر” کی ہدایت موصول ہوئی۔ جوں جوں سیکنڈ کی سوئی آگے پڑھتی گئی، ایم سی آر کی جانب سے مسلسل خاموشی پر پی سی آر میں موجود تمام افراد ایک دوسرے کی جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھتے رہے۔ بڑی اسکرین پر شعیب بھائی مسلسسل ہاتھ ہلا ہلا کر استفسار کررہے تھے کہ یار “اسٹینڈ بائی” کمانڈ کیوں نہیں دے رہے؟ ایم سی آر نے کاؤنٹ ڈاؤن نہیں دیا، لیکن پروگرام کے مقررہ وقت سے 20 سیکنڈ پہلے سے سب نے دل میں کاؤنٹ ڈاؤن شروع کردیا تھا۔ سیکنڈ کا کانٹا پوری چبھن کے ساتھ ٹک ٹک کرتا رہا، 20ویں ٹک کی آواز آئی اور پاک نیوز چینل کی اسکرین پر اچانک بول پر پیش کیا جانے والا نبیل قریشی کا شو نمودار ہوا، جو اس سے قبل رمضان دکان کے طور پر معروف جعلی ڈاکٹر “آمر” اپنی تمام تر. لیاقت کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے۔ اسکرین پر نبیل صاحب نے اچانک “ایک بڑی تبدیلی” کا عندیہ دیا اور بول انٹرٹینمنٹ کی لانچنگ کا اعلان کیا اور عین اسی وقت “پاک نیوز” کا لوگو اسکرین سے غائب ہوا اوراس کی جگہ “بول انٹرٹینمنٹ” کا لوگو منہ چڑانے لگا۔ شو میں موجود تمام لوگوں نے تالیاں بجائیں اور پاک نیوز کا عملہ بھی خوش ہوا، لیکن پاک نیوز سے منسلک تمام عملے کو اگلے چھ روز تک یہ تک نہیں بتایا گیا کہ اب انہیں کرنا کیا ہے، اور یہ کہ وہ اب آئیں بھی یا نہیں۔ چھ روز کے جان کن حالات کے بعد اچانک میڈم عائشہ نے بتایا کہ کچھ پاک نیوز کے کچھ ملازمین کو ابھی ایچ آر نے میٹنگ کے لیے طلب کیا ہے۔ بورڈ روم میں پہنچنے کے بعد ظفر صاحب ایچ آر کی جانب سے پہنچے اور بلائے گئے تمام ملازمین کو بتایا کہ ادارہ انہیں کئی ماہ سے معلق تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں، لہٰذا آپ تمام لوگوں کو فی الحال “ہالٹ” کیا جا، رہا ہے۔ تمام افراد کو 60 روز میں واپس بلالیا جائے گا اور ان کی رکی ہوئی تمنخواہیں آئندہ 45 دن میں ادا کردی جائیں گی۔ بول انتظامیہ کی جانب سے ملازمت پر تمام افراد کی واپسی یا تنخواہوں کی ادائیگی میں سے کوئی وعدہ تاحال وفا نہیں ہوا۔ رابطہ کرنے پر مزید جھوٹ سننے کو بھی ملے۔ اب ایک نیا جھوٹ سننے کو ملا ہے اور اس کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ بول انٹرٹینمنٹ چینل لانچ کردیا گیا۔ میرے بول کے ملازم دوست اپنی غلام ذہنیت کے مطابق اس فارمولے کے تحت اس جھوٹ کو پھیلانے میں بہت مصروف ہیں کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے۔ میں میڈیا کی تاریخ میں جھوٹ کی سربراہی پر بول انٹرٹینمنٹ کے سی ای او نبیل بھائی اور ان تمام دوستوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ لیکن شعیب شیخ صاحب، آپ کو ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں، کہ 22 مئی 2018ء کو ایم سی آر نے کاؤنٹ ڈاؤن نہیں کیا، لیکن قدرت کی گھڑی میں بول گروپ کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوچکا ہے، کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیزن ہوتے اور جن کے پاؤں نہ ہوں وہ کبھی کھڑے نہیں ہوسکتے، کبھی نہیں ہوسکتے۔(زاہد حسین)