bohot se media malikaan ke daman saaf nahi hen

بہت سے میڈیا مالکان کے دامن صاف نہیں ہیں، خواجہ آصف۔۔

وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سیاست کے ساتھ صحافت میں دوغلاپن چلتا رہا تو یہ سب نہیں چلے گا، صحافتی اداروں کے مالکان کو دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میڈیا مالکان کو آزادی صحافت کا خیال رکھنا چاہیئے، سیاستدان تو آسان ہدف ہیں، صحافی پیکا ایکٹ کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ صحافت کی آزادی بہت ضروری ہے، ہم سب کے لیے ایمانداری بہت ضروری ہے، صحافتی آزادی کی جنگ میں آپ کے ساتھ ہوں۔وزیردفاع نے مزید کہا کہ سیاست کے ساتھ صحافت میں دوغلا پن چلتا رہا تو یہ سب نہیں چلے گا، صحافتی اداروں کے مالکان کو دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔ اداروں میں دوغلا پن کسی صورت نہیں ہونا چاہیئے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ آزادی صحافت کا مطلب ایک ستون کو مضبوط کرنا ہے، پی ٹی آئی دور میں ہم سب جیل میں تھے۔ پی ٹی آئی دورمیں لوگ ٹی وی پر بیٹھ کرجھوٹے الزامات لگاتے تھے۔انہوں نے دوٹوک پیغام دیا کہ اب جو بھی غیر قانونی کام کرے گا اس کا تعاقب کیا جائے گا، ملک ریاض کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا نہ سیاسی دباؤ ڈال کر کچھ حاصل ہوگا، میڈیا جس شخص کا نام لینے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، اب احتساب کا سلسلہ وہاں تک بھی پہنچ گیا،میں سمجھتا ہوں کہ ملک ریاض کے جرائم میں میڈیا برابر کا شریک جرم ہے، آپ کو ایک پروگرام کے دوران دو اینکر پرسنز کی بات چیت یاد ہوگی، جس ملک میں صحافی، سیاست دان اور جج خرید لیے جائیں وہاں آپ کیا امید باندھ سکتے ہیں۔ عوامی مسائل پر فوکس کے لیے میڈیا 10 سیکنڈ کا پیغام نہیں چلاسکتا، لیکن دوسروں پر کیچڑ اچھالتا رہتا ہے، خود بہت سے میڈیا مالکان کا دامن صاف نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافت آزاد نہیں، میڈیا اداروں کے مالکان اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکیں، انہیں بزنس دینے والے کسی کاروباری شخص کے خلاف بیانات نہیں چلائے جاتے۔انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کی جو ٹوئٹ آئی تھی، اس پر اپنی بات کی تھی، صحافی حضرات پیکا پر تو احتجاج کرتے ہیں، اس بات پر بھی احتجاج کریں کہ میڈیا اداروں کے مالکان کو بزنس دینے والے آدمی کے خلاف بیانات نہیں چلائے جاتے، سیاستدان میڈیا کا سافٹ ٹارگٹ ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ میں نے کئی ٹی وی پروگرامز میں جب بھی ملک ریاض کے خلاف بات کی، اسے کاٹ دیا جاتا تھا، جب پروگرام دیکھتا تھا تو میری کہی ہوئی باتیں اس میں سے حذف کردی جاتی تھیں، رپورٹرز میڈیا کے فرنٹ سولجرز ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں