تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
سمجھ نہیں آرہی کہ اس بات پر ہنسا جائے یا رویا جائے کہ پاکستان کو چالیس سال بعد اب احساس ہوا ہے کہ ان کا strategic depthکے نام پر افغانستان میں اپنے پسندیدہ جنگجو گروپ کو سپورٹ کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ اب چار دہائیوں بعد ہم اس سارے عمل کو ریورس کررہے ہیں کیونکہ وہ نتائج نہیں نکلے جن کی ہمیں توقع تھی۔ جن سٹریٹجک نتائج کیلئے ہم نے چالیس سال تک بوجھ اٹھایا اب اس نے ہماری چیخیں نکلوا دی ہیں۔ ریاست کی سکیورٹی خطرے میں پڑ گئی ہے۔جب طالبان کابل پر حکمران بنے تو صرف دو سال کے اندر ہمیں احساس ہوا ہے کہ ہم سے تو بلنڈر ہو گیا ہے۔جی ہاں صرف دو سال میں۔اب نگران وزیراعظم کاکڑ نے پریس کانفرنس کی ہے جس میں انہوں نے کابل حکومت کے بارے کہا ہے کہ ا ن کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ کابل حکومت کے وزیروں نے دوسری طرف پریس کانفرنس کر کے پاکستان کے حوالے سے اپنے اچھے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان کو شکایت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان سے سپورٹ مل رہی ہے اور وہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ بلکہ پاکستان کو تو یہاں تک شکایت ہے کہ جب سے طالبان کی حکومت کابل پر قائم ہوئی ہے اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کو توقع تھی کہ کابل پر طالبان حکومت آنے کیساتھ ہی ٹی ٹی پی تحلیل ہو جائے گی اور پاکستان کا مغربی بارڈر محفوظ ہو جائے گا‘ جس کیلئے چالیس سال تک افغانستان میں اپنے پسندیدہ گروپس کو سپورٹ دی گئی جس پر پوری دنیا میں احتجاج بھی ہوا اور پاکستان حکام کو طالبان کا گاڈ فادر تک کہا گیا۔ پاکستان نے پہلے روسی جارحیت کے نام پر افغان مجاہدین کو امریکہ اور یورپ کی مدد سے سپورٹ کیا تاکہ روس کا راستہ روکا جائے۔ اس وقت پاکستانی قوم کو یہ نعرہ دیا گیا کہ روس افغانستان کو فتح کرنے کے بعد پاکستان کا رُخ کرے گا کیونکہ اسے گرم پانیوں تک رسائی درکار ہے۔ مطلب روس گوادر اور کراچی پورٹ تک آنا چاہتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو روس سے بچانا ہے تو پھر ہمارے مفاد میں ہے کہ افغان مجاہدین کی سپورٹ کریں اور اپنی سرحدیں کھول دیں۔ روس تو پاکستان نہ آیا لیکن طالبان ہتھیار اُٹھائے پہنچ گئے۔ ان کے علاوہ تیس لاکھ مہاجرین پاکستان آئے اور اکثر نے شناختی کارڑز اورپاسپورٹس بنوالئے ۔ یہاں جائیدادیں بھی خرید لیں اور کاروبار شروع کر دیے‘ اور انکے مقامی لوگوں اور معاشرے کیساتھ ساتھ کلچرل تنازعات بھی ابھرے۔ پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی کھڑا ہوا۔ پشاور‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ‘ اسلام آباد اور کراچی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اگرچہ انکے اثرات پورے ملک پر پڑے لیکن چند بڑے شہروں نے اسکا خمیازہ زیادہ بھگتا‘ خصوصا ًکراچی نے۔ صرف کراچی ہی نہیں‘ پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا شہر یا قصبہ اس سے متاثر ہوا۔
اگر آپ کو یاد ہو‘ جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو وہاں سب سے پہلے پہنچنے والے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید تھے۔ ان کی سرینا ہوٹل میں موجودگی نے سب کو حیران کر دیا۔ جب پوری دنیا اس صدمے کا شکار تھی کہ طالبان نے کیسے راتوں رات کابل پر قبضہ کر لیا اور افغان آرمی غائب ہوگئی‘ امریکن اپنے زخم چاٹ رہے تھے اور کوئی بہانہ تلاش کررہے تھے کہ کس پر سارا الزام دھریں ‘ اس وقت جنرل فیض حمید کابل میں وکٹری کا نشان بناتے نمودار ہوئے اور سارا کریڈٹ لے لیا۔ یوں نہ صرف افغان نوجوان نسل اور عوام جو طالبان کے خلاف تھے‘ کے دلوں میں پاکستان کے لیے نفرت ابھری بلکہ امریکہ سے یورپ تک سب حکومتوں اور عوام میں پاکستان کے بارے میں منفی جذبات ابھرے۔ مجھے یاد ہے جنرل فیض کی چائے پیتے تصویر کو پاکستان میں سابق آرمی افسران اور ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی تک نے پسند نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں فورا ًطالبان کو اونرشپ نہیں دینی چاہیے اور ان سے دور رہیں ورنہ اس کا سارا ملبہ ہمیں اٹھانا پڑے گا۔ لیکن اس وقت پاکستان میں شادیانے بجائے جارہے تھے۔اگر ایک طرف فیض حمید کابل ہوٹل میں نمودارہو کر اسے پاکستان کی فتح قرار دے رہے تھے تو وہیں اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان طالبان کو کابل پر قبضے کی مبارکبادیں دے رہے تھے اور اسے غلامی سے آزادی تک کا سفر قرار دے رہے تھے ۔ اُس وقت کچھ ہوش اور سمجھداری کی ضرورت تھی لیکن وزیراعظم عمران خان‘ آرمی چیف جنرل باجوہ اور ڈی جی آیس آئی جنرل فیض حمید نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس پر آج تک سب حیران ہیں کہ ان تینوں نے کیا سوچ کر وہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت پاکستان ان 35 ہزار طالبان جنگجوئوں اور ان کے خاندانوں کو واپس سوات لے آیا جو فوجی آپریشن کے بعد افغانستان بھاگ گئے تھے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہے تھے۔ یوں ہزاروں طالبان کو واپس پاکستان لایا گیا‘ جنہوں نے آرمی کے خلاف گوریلا جنگ لڑی تھی۔ان کی واپسی کے خلاف سوات‘ مینگورہ‘ مالاکنڈ کے علاقوں میں عوامی مظاہرے ہوئے جنہیں خطرہ تھا کہ طالبان ان کے لیے وہی پرانے مسائل پیدا کریں گے جو 2009-10 ء میں ہوئے تھے جب صوفی محمد نے اپنی شرعی ریاست کا اعلان کیا تھا۔ ان طالبان کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے فوجی جوانوں نے جانیں قربان کی تھیں‘مگر اب انہیں واپس لایا جارہا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ سوات کے عوام ووٹ بھی تحریک انصاف کو دیتے آئے ہیں اور اب انہی کی پسند کی پارٹی اور وزیر اعظم ان طالبان کو واپس لا رہے تھے جن کے خلاف وہ مظاہرے کررہے تھے۔
خیرٹی ٹی پی کی واپسی کے ساتھ ہی پاکستان میں دوبارہ دہشت گردی نے سر اٹھایا اور اچانک بم دھماکوں اور حملوں کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ برسوں تک سکون رہا تھا لیکن اب میانوالی ایئربیس پر حالیہ حملے کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ طالبان افغانستان فتح کرنے کے بعد پاکستان کا رُخ کر چکے ہیں۔ اور داد دیں عمران خان‘ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو جو اِنہیں افغانستان سے باقاعدہ اہتمام سے واپس لائے کہ وہ یہاں امن سے رہیں گے۔ ان کی آمد کے بعد ایک دن بھی امن نہ رہا۔ تحریک طالبان نے باقاعدہ اکثر حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ویسے حیرانی ہوتی ہے اس ملک کو چلانے والوں پر۔ ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی معصومیت میں کیسے یہ تصور کر لیا کہ افغان طالبان کے کابل فتح کرنے کے بعد پاکستانی طالبان ہتھیار پھینک کر اچھے بچے بن جائیں گے؟ یا افغان طالبان پاکستان کی مدد کریں گے تاکہ ٹی ٹی پی کو ختم کیا جائے۔ جو کام افغان طالبان خود عمر بھر کرتے رہے وہ اس کام سے پاکستانی طالبان کو کیسے منع کرسکتے تھے؟ اندھے کو بھی نظر آرہا تھا کہ افغان طالبان کی کابل کی فتح کے بعد تو پاکستانی طالبان کا حوصلہ بڑھے گا کہ اگر افغان طالبان امریکہ سے بیس سال لڑ کر افغانستان پر قبضہ کرسکتے ہیں تو وہ پاکستان میں یہ کام کیوں نہیں کرسکتے تھے؟اب پاکستان نے طالبان سے ہاتھ اٹھا لیا ہے‘ سخت اقدامات کئے جارہے ہیں‘غیر قانونی افغانوں کو واپس بھیجا جارہا ہے‘ جعلی شناختی کارڈز بلاک کیے جارہے ہیں۔ سمگلنگ کو روکا جارہاہے۔ اب تو یہ بھی خبر ہمارے دوست صحافی کامران یوسف نے بریک کی ہے کہ پاکستان اب عالمی سطح پر طالبان کی پالیسیوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اب مزید طالبان کو اپنا دوست نہیں سمجھا جائے گا۔
شاید سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کی اس بات کے پورے ہونے کا وقت آگیا ہے کہ اگر آپ اپنے گھر کے پچھواڑے میں یہ سوچ کر سانپ پالیں گے کہ وہ صرف ہمسائے کو نقصان پہنچائیں گے تو تسلی رکھیں ایک دن وہ آپ کو بھی ڈسیں گے۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔