تحریر: عبدالوحید جیلانی
شہر قائد کے درجن بھر میڈیا پرسن کی تفصیلات جمع کر لی گئیں ۔۔معاشرے میں ہر ایک کو اپنا بہتر کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔۔پولیس کا تو نام ایسے ہی خراب ہے اصل خرابی تو میڈیا کی طرف سے چل رہی ہے بلیک میلنگ اور کردار کشی کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔۔
میڈیا کے چھوٹے اداروں کی مستی اور بڑے اداروں کی خرمستی عروج پر ہے ان دنوں ایسے چینل اور اخبارات بہت زیادہ ہو گئے ہیں جو اپنے رپورٹرز کو تنخواہ دینے کی بجائے ان سے ماہانہ ٹھیکہ کی رقم وصول کر رہے ہیں ہفتہ دیتے جاؤ کسی کو بھی بلیک میل کرو کسی کی بھی کردار کشی کرو خود کھاؤ اور ہمارے لیے لے کر اؤ کچھ ایسے بھی ادارے ہیں جو تین تین ماہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کرتے ہیں پھر اسکروٹنی کے نام پر ان ملازمین کو پہلے فارغ کر دیا جاتا ہے جو بار بار تنخواہ مانگتے ہیں کچھ اداروں کے ایسے رپورٹر بھی ہیں جو ایس ایچ او چوکی انچارج ہیڈ محرر اور ڈیوٹی منشی اعلی افسران کو کہہ کر لگواتے ہیں جن کے پاس کل تک کچھ نہیں تھا وہ 8 سے 10 سالوں میں لکھ پتی اور کروڑ پتی بن گئے کوئی چھالیہ والے کا پارٹنر بنا ہوا ہے کوئی گٹکے ماوے والے کا پارٹنر بنا ہوا ہے کوئی جوئے سٹے کے اڈے کی سرپرستی کر رہا ہے کوئی شیشہ باہر چلا رہا ہے کوئی گیسٹ ہاؤس اور فارم ہاؤس پر اپنا سکہ جما کر بیٹھا ہوا ہے ان سب کا بھی سب کو پتہ ہے۔۔
یہ جو قلیل تنخواہوں پر کام کرنے والے میڈیا پرسن زرق برق لباس اور گاڑیاں لے کر گھوم رہے ہیں کوئی ان سے بھی تو پوچھے کہ قلیل تنخواہ میں یہ اخراجات کس طرح پورے ہوتے ہیں ؟؟
محکمہ پولیس ہی نہیں ایس بی سی اے واٹر بورڈ اور دیگر اداروں میں بھی میڈیا کے لیے ایسے ہی معاملات سامنے ارہے ہیں مفت میں کام کرنے والے میڈیا پرسن بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اورنگی ہو یا کورنگی نیو ٹاؤن ہو یا شاہ لطیف ٹاؤن ہر جگہ میڈیا کے وہ لوگ جو اپنے اداروں کو ہفتہ دیتے ہیں یا مفت کام کرتے ہیں وہ مذکورہ علاقوں میں کردار کشی اور بلیک میلنگ کا کام تیزی کے ساتھ کر رہے ہیں۔
سلام ہے ان میڈیا پرسن پر جو اج بھی درست راستے پر کام کر رہے ہیں اور صحافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔
موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پی ایس پی پولیس افسران کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور پی ایس پی افسران کی جو سالانہ میٹنگ ہوتی ہے اسے جلد ہی کر کے اس میٹنگ میں محکمہ پولیس اور معاشرے کو درست کرنے کی پالیسی بنانی ہوگی تھانیداری کا شوق رکھنے والے افسران کو بھی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ میرٹ پر تقرری حاصل کریں نہ کہ کسی اور طریقے سے ۔۔
سفارش بہت اہم ہے اگر درست کام اور اچھے افسر کے لیے کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔۔ہم اس دنیا میں بہت زیادہ 60,70 یا 80 سال تک رہیں گے پھر ہم نے مر جانا ہے پھر اوپر والے کو حساب بھی دینا ہے ۔۔ہم کتنے ہی اپنے اپ کو تونگر یا فنکار سمجھیں ہم مٹی ہیں اور جلد ہی مٹی میں مل جائیں گے اور بہت سے لوگوں کو تو مٹی بھی نصیب نہیں ہوتی ہے ان کی لاشوں کو کیڑے کھا جاتے ہیں۔
خرابی اوپر سے ہے یا نیچے سے اگے سے یا پیچھے سے اس خرابی کو دور کرنا ہوگا انے والی نسل کو ایک اچھا معاشرہ دینا ہوگا ورنہ یاد رکھیں تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے اور تاریخ ہمیشہ ٹکرانے والوں کی لکھی جاتی ہے تلوے چاٹنے والوں کی نہیں۔
شہر میں ایک بات بہت چل رہی ہے کہ جعلی رپورٹر کام کر رہے ہیں یہ جعلی صحافی بھی اداروں نے پیدا کیے ہیں اور یہ کم از کم ان نام نہاد ٹھیکے داروں سے بہت بہتر ہیں جو اداروں میں کام کرتے ہیں تنخواہ لیتے ہیں اور اپنے گورکھ دھندے چلاتے ہیں شرم انی چاہیے ایسے لوگوں کو اور ایسے لوگ جلد ہی انجام کو بھی پہنچ جاتے ہیں اور ایسے لوگ جب مرتے ہیں تو بڑی تکلیف میں مرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو بڑی تکلیف دی ہوتی ہے۔(عبدالوحیدجیلانی)