تحریر: ملک سلمان۔۔
میں گھر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ ایک سرکاری افیسر دوست کی کال آئی مختصر احوال کے بعد اس نے کہا کہ یار میں ایک جگہ پھنس گیا ہوں جلدی سے میرے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجنا ۔ میں نے اسے کہا کہ اکاؤنٹ نمبر شیئر کرو ویسے اللہ خیر کرے کس مصیبت میں ہو ؟
اس نے بتایا کہ اس نے اپنے کچھ دوستوں اور افسران کو عید ملن پارٹی پہ بلایا تھا اور 12 افراد کا ٹیبل بک کروایا لیکن موقع پر 30 افراد پہنچ گئے ۔ 12 کی بجائے 30 افراد سے پر ہیڈ بوفے کا بل 300 گنا زائد ہو چکا ہے ۔
اتنے تو میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں جتنے یہ بے شرم اگئے ہیں۔ اگر ہانڈی کا منہ کھلا ہو تو کتے کو ہی شرم کرنی چاہیے ۔ پتہ نہیں ایسے بے غیرت اچھی جگہوں پر کیسے چلے گئے اور ان کو کس نے افیسر بنا دیا۔
وہ غصے میں بولتا جا رہا تھا ۔
میں نے اسے حوصلہ دیا کہ کچھ نہیں ہوتا بھائی میں پیسے ٹرانسفر کرتا ہوں ۔ کال ختم ہونے سے پہلے اس کی آخری الفاظ تھے کہ بھائی آپ کو قسم ہے کہ اس ٹاپک پر ضرور لکھو کیونکہ ایسے بے حس بے ضمیر اور بے غیرت لوگوں کی وجہ سے ہم سفید پوش لوگوں کا بھرم بھی ختم ہوتا جارہا ہے ۔
اس کی کال ختم ہوئی تو مجھے درجنوں ایسے افراد کے چہرے نظر آنے لگے جو واقعی ایسی گھٹیا حرکات کے عادی ہیں ۔
کہتے ہیں کہ مہمان رحمت ہوتے ہیں لیکن بن بلایا مہمان زحمت ہوتا ہے ۔
اس سے قبل بھی بہت سارے قریبی دوست بار بار اصرار کرتے رہے کہ اس موضوع پر ضرور لکھنا چاہیے، میں نے بہت دفعہ اس ٹاپک پر لکھنے کی کوشش کی لیکن صرف اس لیے نہیں لکھ سکا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو لیکن آج کے واقعے کے بعد اس پر لکھنا اس لیے ضروری سمجھا کہ نہ لکھا تو اللہ کے ہاں گنہگار نہ ہو جاؤں ۔
ایک دفعہ میں کسی دوست کے ساتھ بیٹھا تھا تو ویسے ہی کہا کہ یار فلاں بندے کو بھی بلا لیتے ہیں ۔
ساتھ بیٹھے اس کے بیج میٹ نے کہا کہ نہ نہ یار اس چول کو نہ بلانا وہ ہر وقت ساتھ دو پراپرٹی ڈیلر لے کر پھر رہا ہوتا ہے ان کو ساتھ اٹھائے گا اور یہاں آکر بیٹھ جائے گا پراپرٹی ڈیلروں کے سامنے تو بندہ اپنی ذاتی گپ شپ بھی نہیں کر سکتا ۔
ایسا ہی ہے دوست احباب کی گیٹ ٹوگیدر اور گیدرنگ کا مقصد روٹین کی ہیکٹک لائف سے تھوڑا ہٹ کے لائک مائنڈڈ اور میوچول دوستوں کے ساتھ کوالٹی ٹائم سپینڈ کرنا ہوتا ہے نہ کہ بن بلائے نمونوں کی وجہ سے ریزرو سا ہو کے رہ جانا اور اپنا قیمتی وقت برباد کرنا۔
مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا کہ کسی بندے نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ اور بھابھی کسی دن کھانے پر گھر آئیں ۔
وہ سات بچوں سمیت چلا گیا ۔ میزبان کی بیوی تھوڑی منہ پھٹ تھی کہنے لگی کہ بھائی صاحب اتنے بچوں کے ساتھ آتے ہوئے حیا نہیں آئی۔ بھولے میاں مہمان کہنے لگے کہ جی جی بھابھی اس نے بھی ضرور آنا تھا لیکن وہ اپنی دوست کی گھر گئی ہوئی تھی ۔ ایسے ہی کچھ بے شرم ٹائپ مہمانوں سے آئے دن ہمارا واسطہ بھی پڑھتا رہتا ہے ۔ بن بلائے مہمانوں کو ہمراہ لانے والے دوست اپنی بے شرمی بے حیائی ڈھٹائی اور گھٹیا ذہنیت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اس لیے آہستہ آہستہ ایسے افراد دوستوں کی کمیونٹی سے بے دخل کر دیے جاتے ہیں ۔ مذکورہ ذہنیت کے حامل افراد کو کسی دعوت پر بلانا تو درکنار کوئی دوست میسج تک بھی نہیں کرتا لیکن آپ کو داد دینی پڑے گی کہ وہ خود ہی کال یا میسج کر کے آپ سے پوچھ رہے ہوں گے کہ خیر ہے یار آج کل نو لفٹ ہمیں بلاتے ہی نہیں ، لگتا ہے کہ آپ بڑے بندے ہو گئے ہیں ہمیں بھول گئے ہیں جبکہ حقیقتا بندہ ایسے بے شرم نمونوں کو کبھی نہیں بھولتا۔
سب سے زیادہ بے حسی بے شرمی اور بے غیرتی کا مظاہرہ شادیوں کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے جب بیچارے میزبان نے 300 لوگوں کا ارینجمنٹ کیا ہوتا ہے تو موقع پر 500 کے قریب افراد آن وارد ہوتے ہیں ۔ اسی معاشرتی بے حسی کی وجہ سے شادی بیاہ کے موقع پر یہ روایت بن چکی ہے کہ اگر 200 مہمانوں کی لسٹ ہو تو ہم 250 سے 300 کا ارینجمنٹ کرتے ہیں ستم ظریفی دیکھیے کہ اخر پر یہی تعداد 400 کے لگ بھگ یعنی ڈبل ہو چکی ہوتی ہے ۔
میری آپ سب دوستوں سے درخواست ہے کہ کوئی بھی دوست اس تحریر کو پرسنل نہ لے بلکہ اگر اس تحریر سے متفق ہیں تو اس کو اس نیت سے شیئر کریں کہ ہم نے اصلاح معاشرہ کرنا ہے ۔ بن بلائے مہمان لانے والے دوستوں کو اتنا ذلیل اور بےعزت کرنا ہے کہ ان کو شرم آ جائے ۔ دوسروں کو شرم دلانے کے ساتھ میں نے اور آپ نے آئندہ اور محتاط ہو جانا ہے کہ ہم کسی بھی جگہ پر عزت کے ساتھ دعوت پر بلائے جائیں تو وہاں رحمت بنیں زحمت نہیں۔(ملک سلمان)۔۔