تحریر: کامران سہیل۔۔
نئے پاکستان میں ہر چیز نئی ہوگئی۔۔جمہوریت بھی نئے انداز میں چلائی جارہی ہے۔۔یعنی آمرانہ طریقے سے۔۔سب نے نئے پاکستان کو قبول کرلیا۔۔۔۔۔اور پرانے پاکستان کو بھول گئے۔۔۔کراچی کے علاقے صدر میں گورنر ہاؤس کے قریب ایک تاریخی عمارت ہے۔۔۔جو قومی ورثہ بھی ہے۔۔یہ جگہ مظلوموں اور محکوموں کے لئے توانا آواز ہے۔۔ایوانوں تک رسائی نہ بھی ہو۔۔۔۔لیکن اس بات کا یقین یہاں آؤ گے تو آواز دور دور تک جائے گی۔۔۔یہی یقین مظلوموں کو اس دہلیز پر کھینچ لاتی ۔۔کئی کئی دن تک اس دیوار گریا کے نیچے بیٹھ کر بھوک ہڑتال کی جاتی ہے۔۔دھرنے دئے جاتے ہیں اور احتجاج کیا جاتا ہے۔۔۔۔جی ہاں۔۔ اس امید سحر،یقین و محکم ، مادر جمہوریت کا نام۔۔کراچی پریس کلب ہے۔۔ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک ہو۔۔۔یا آمریت کے خلاف جدوجہد ہو۔ ۔ کراچی پریس کلب سب سے آگے رہا۔۔ہر جابر وقت اسی سے ٹکرایا۔۔اور دہلیز کو چوم کر چھوڑ گیا۔۔دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے۔
نئے پاکستان میں کراچی پریس کلب کو بھی نئے پریس کلب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔۔۔اسی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک ریاستی ادارے سی ٹی ڈی نے تمام تر اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بن بلائے مہمان بن کر آ دھمکے ۔۔۔۔لیکن سبکی آٹھانا پڑی۔۔۔اس واقع کو چند گھنٹے بھی نہ گزرے حکومت سندھ کے سوا دیگر ریاستی اداروں کے اعلی افسران کراچی پریس کلب پہنچنا شروع ہوگئے۔۔۔۔اور واقع کو غلط فہمی قرار دیتے رہے۔۔لیکن کراچی پریس کلب کی انتظامیہ اور صحافتی تنظیموں نے ریاستی اداروں کے موقف کو ماننے سے انکار کردیا۔۔یہ بات اب سمجھ آنے لگی کہ نئے پاکستان میں کراچی پریس کلب پر حملے میں پرانے پاکستان کی حکمران جماعت کی سندھ حکومت براہ راست ملوث نظر آئی۔۔۔کیونکہ کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی نے سندھ حکومت کے منظور نظر صحافیوں کو ممبر شپ نہیں دی ۔۔جس کا اظہار حکومتی وزیر ناصر حسین شاہ نے سندھ اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔۔۔۔کہا کہ کراچی پریس کلب پر ایک مذہبی جماعت کا قبضہ ہے۔۔کسی مطلوب شخص کی تلاش میں حساس داروں نے چھاپہ مارا ہے۔۔ناصر شاہ صاحب کو بس اتنا کہنا ہے کہ درست فرمایا کراچی پریس کلب میں ایک مذہبی جماعت کا قبضہ ہے۔۔بلکل اسی طرح جس طرح دس سال سے سندھ پر پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے۔۔جمہوریت کے عالمی چیمپئن ناصر شاہ صاحب کراچی پریس کلب میں ہر سال انتخابات ہوتے ہیں اور اسی انتخابات کے تحت کلب کی گورننگ باڈی وجود میں آتی ہے۔۔۔۔ناصر شاہ صاحب یہی کراچی پریس کلب ہے جس میں آپ کی مرحومہ قائد محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کے لئے کراچی پریس کلب کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔۔۔۔جب کوئی جائے پناہ نہ تھی تو کراچی پریس کلب ہی تھا جہاں وہ اپنے بچوں بشمول آپ کے نئے چیئرمین بلاول بھٹو کو چھوڑ کر کورٹ کچھری کرتی تھیں۔۔۔۔دوپہر میں واپسی پر ایسی دیوار گریا کے سائے تلے بیٹھ کر کھانا کھلاتی تھیں ۔۔جس کو آپ نے کہا یہاں دہشت گرد موجود تھے۔۔۔۔۔
اطلاع ہے کہ سندھ میں بھی بڑے پیمانے پر کاروائیوں کا آغاز ہونے والا ہے۔۔اس کا سب سے بڑا نشانہ پیپلز پارٹی ہی بننے والی ہے۔۔ نئے پاکستان کے حکمرانوں کا خدشہ ہے کہ کراچی پریس کلب کا ایک بار پھر پلیٹ فارم استعمال ہوگا۔۔۔۔یہاں احتجاجی مظاہرے ہونگے اور پریس کانفرنسز ہونگی۔۔اور حکومت کے خلاف ایک توانا آواز بلند ہوگی۔۔۔اسی آواز کو کچلنے کے لئے کراچی پریس کلب کے وقار کو مجروع کیا گیا۔۔۔۔سونے پہ سہاگا یہ ہوا۔۔حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی بنائی ۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے وزراء کو استعمال کیا کراچی پریس کلب کے خلاف ۔۔۔ناصر شاہ کی کراچی پریس کلب کے خلاف زہر آفشانی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔۔
لیکن سلام ہے کراچی پریس کلب اور صحافتی تنظیموں پر جو تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ادارے کو بچانے کے لئے ایک ہوگئے۔۔۔اور سینئر صحافی نصر اللہ خان چوہدری کی رہائی کے لئے مصروف ہوگئے۔۔۔
نصر اللہ چوہدری بھائی کو ایک نہ ایک دن تو رہا ہونا ہے۔۔۔ان پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات جھوٹے ثابت ہونگے ۔۔۔اور آزادی صحافت سرخرو ہوگی۔۔۔لیکن پیپلز پارٹی والوں غمگین نہ ہونا ہم آپ کے اوپر پریس کلب کے دروازے بند نہیں کریں گے۔۔۔۔آپ کو وہی عزت دی جائے گی جو بے نظیر بھٹو کو دی تھی۔۔۔بلاول بھٹو اسی طرح کراچی پریس کلب آئیں گے جس طرح آمریت کے دور میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ آیا کرتے تھے۔۔۔۔۔کیوں کہ کراچی پریس کلب کسی کا گڑھ نہیں اس کی در و دیوار جمہوریت کے لئے وقف ہے۔۔۔۔اسی لئے تو کراچی پریس کلب کو دیوار گریا کہا جاتا ہے۔۔۔(کامران سہیل)۔۔
(کامران سہیل نیونیوز کراچی بیورو میں رپورٹر ہیں اور کراچی کی سیاست اور شہرقائد کے حالات و معاملات سے باخبر بھی ہیں، لیکن ہماری ویب سائیٹ کا ان کے خیالات اور ان کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔