تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
محمد علی کینیڈا میں سیٹل ہو چکے تھے۔ وہ پاکستان کو پیچھے چھوڑ آئے تھے تاہم جب انہیں جنرل باجوہ کا پیغام ملا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ انرجی سیکٹر کے وہ ماہر تھے۔ پاکستان جن انرجی کرائسز کے چنگل میں پھنس گیا تھا ان کا حل نکالنا ضروری تھا۔ ان پاور کرائسز کا حل صرف اس وقت نکل سکتا تھا جب اس ایشو کی جڑ کو پکڑا جاتا‘ جس کی وجہ سے پاکستان کا بجلی کا گردشی قرضہ دو ہزار ارب کا ہندسہ عبور کر گیا تھا‘ دن رات مارک اَپ الگ سے جمع ہور رہا تھا۔ پاور کمپنیوں کو کوئی ٹینشن نہیں تھی کیونکہ وہ ڈالر کے حساب سے بل وصول کررہی تھیں اور ڈالر کا ریٹ روز بروز اوپر جارہا تھا۔ جب ہر سیکٹر مہنگائی کے بوجھ تلے دبا تھا‘ پاور سیکٹر اس وقت بھی لمبی کمائی کر رہا تھا۔اگر حکومت ان کا گردشی قرضہ نہیں چکا پارہی تھی تو بھی نقصان نہ تھا کیونکہ مارک اَپ میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا تھا اور کسی وقت ایک ہی ہلے میں سب ادائیگیاں ہو جانی تھیں جیسے 2013ء میں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے پندرہ بیس دن کے اندر اندر اسحاق ڈار نے ایک ہی دن میں ان سب پاور کمپنیوں کو 480ارب روپے کی ادائیگی کرائی تھیں۔ کسی ایک کمپنی کا بل آڈٹ نہیں ہونے دیا‘ جو قانونی تقاضا تھا۔ الٹا سٹیٹ بینک گورنر کو کہہ کر سب ادائیگیاں براہِ راست ان پاور کمپنیوں کے لاہور والے بینک اکاؤنٹس میں کرائی گئیں۔ اس پورے معاملے میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کو ہوا تک نہیں لگنے دی گئی کہ کہیں وہ اس سارے غیرقانونی پراسیس کو روک نہ دیں۔ اور تو اور پاور کمپنیوں کے بلز فوٹو کاپی پر کلیئر کیے گئے جو ایک اور بڑی قانونی خلاف ورزی تھی۔ بلوں کا پری آڈٹ تک نہ ہونے دیا گیا۔ 32ارب روپے کا لیٹ ادائیگی کا جرمانہ تک معاف نہ کرایا گیا جو پاور کمپنیاں پی پی پی دور میں اس شرط پر معاف کرنے کو تیار تھیں کہ انہیں یکمشت ادائیگی کی جائے۔
عمران خان دور میں ایک ہزار ارب کے قریب گردشی قرضہ کلیئر کیا گیا تھا لیکن اب پھر یہ دو ہزار ارب کا ہندسہ عبور کر گیا تھا۔ دوسری طرف گیس کا گردشی قرضہ بھی دو ہزار ارب تک پہنچ رہا تھا۔ گیس اور بجلی کا مجموعی گردشی قرضہ چار ہزار ارب کراس کر گیا تھا جبکہ پورے ملک کی ٹیکس آمدن چار سے پانچ ہزار ارب ہی تھی۔ ان حالات میں اگر محمد علی انکار کرتے تو شاید وہ اسے اپنی خود غرضی سمجھتے۔ یوں 2019ء کی آخری سہ ماہی میں محمد علی نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ واپسی پر ان کی ملاقات عمران خان سے بھی ہوئی جس میں انہوں نے پاور سیکٹر کے اہم معاملات پر بریفنگ دی جس پر ان کی بھی آنکھیں کھل گئیں۔ اس وقت عمران خان کو محسوس ہوا کہ پاور سیکٹر میں جو کچھ غلط ہوا اور ہورہا تھا اس میں سارا قصور زرداری اور شریف خاندان کا ہی نکلے گا۔ ان کا یہ سوچنا جائز بھی تھا کیونکہ اب تک جتنے پاور پلانٹس لگے تھے وہ سب زرداری اور شریفوں کے ادوار میں لگے اور ایسی خوفناک شرائط پر لگے تھے جو پاکستانی ریاست اور عوام کے مفادات کے خلاف تھیں۔ یوں عمران خان کو بھی یہ سوٹ کرتا تھا کہ ایسی انکوائری رپورٹ تیار ہو جس کی آزادانہ حیثیت پر کوئی انگلی نہ اٹھ سکے اور شریفوں کا سارا کچا چٹھا بھی سامنے آجائے جسے وہ عوام میں لے جا کر دکھا سکیں کہ دیکھو تم پرتین تین دفعہ حکومت کرنے والی پارٹیوں نے تمہیں کیسے لوٹا اور یہ لوٹ مار ایک دفعہ نہیں ہوئی تھی کہ اسے نظر انداز کر دیا جاتا بلکہ ان حکمرانوں نے ایسا جال تیار کیا تھا کہ ان کی سات نسلیں بھی کھاتی رہیں تو کبھی ختم نہ ہو بلکہ ان نسلوں کی کمائی کا بندوبست انہوں نے ڈالروں میں کر دیا تھا تاکہ گرتی ہوئی روپے کی قدر بھی ان کی انکم پر اثر نہ ڈال سکے۔ لیکن خان کو علم نہ تھا کہ ان دو سیاسی جماعتوں کے لاڈلوں کے علاوہ ان کے دائیں بائیں بیٹھے اپنے وزیر بھی اس کھیل میں ملوث پائیں جائیں گے۔ طے ہوا کہ محمد علی اس کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جو پاور سیکٹر اور آئی پی پیز کا 1994ء سے لے کر 2019ء تک کا سارا ریکارڈ اور پرفارمنس چیک کرے گی۔
اس کمیٹی کے ذمے لگا کہ وہ پاور سیکٹر آڈٹ اور گردشی قرضے جیسے گمبھیر مسائل کا کوئی مستقل حل نکالے۔ اس کمیٹی میں محمد علی کے علاوہ جن دیگر پروفیشنلز کو شامل کیا گیا ان میں وسیم مختار‘ نیپرا کے سلمان رحمن‘ ایس ای سی پی کے نعمان اختر‘ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے زبیر محمود شامل تھے۔ ان کے علاوہ سجاد باجوہ ایف ائی اے‘ آئی ایس آئی کے لیفٹنٹ کرنل( ر) جاوید جہاں‘ مزمل حسین‘ عدنان ستار‘ عمران رمضان‘ کلیم اختر‘ ابو ذر ولایت‘ احمد عبدالمعیز‘ حافظ واجد واحدی‘ عمیر اسلم‘ فہیم بیگ‘ فائزہ یعقوب اور سید ابراہیم علی جیسے پروفیشنلز بھی شامل تھے جو اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ نعمان خان کو اس کمیٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا۔
کمیٹی تو بنا دی گئی تھی لیکن اس کمیٹی کے پاس بجٹ نہیں تھا کہ وہ کہیں بیٹھ کر کام کر سکے۔ اس کمیٹی کو صرف چار کمپیوٹرز دیے گئے۔ محمد علی جب دفتر گئے تو پتا چلا باقی چھوڑیں‘ بیٹھنے کے لیے مناسب کرسیاں میزیں تک موجود نہیں۔ اس پر محمد علی نے اپنی جیب سے پندرہ لاکھ روپے نکال کر دیے کہ ضروری سامان خریدا جائے تاکہ سب لوگ کام تو شروع کریں۔ محمد علی کا خیال تھا کہ وہ مارکیٹ سے ایسے قابل لوگوں کو اٹھا کر کمیٹی میں لائے تھے جو نہ صرف محبِ وطن تھے بلکہ ذہین اور محنتی بھی تھے جنہوں نے رپورٹ کی تیاری کے دوران ایک ایک ایشو پر سخت بحث مباحثہ کیا بلکہ ایک دوسرے سے شدید اختلاف بھی کیا۔ یوں جہاں اس رپورٹ میں غلطیوں کے امکانات کم سے کم ہوتے چلے گئے وہیں کسی ایک فردِ واحد کی کوئی غلط خواہش یا کسی پاور پلانٹ یا سیاسی حکمران کو سیاسی طور پر فائدہ دینے یا فکس کرنے کا امکان بھی زیرو ہو کر رہ گیا۔ ان درجن بھر قابل اور ذہین لوگوں کے درمیان بیٹھ کر کوئی کسی کو کیا فائدہ یا نقصان دلوا سکتا تھا؟ یوں یہ توقع تھی کہ اتنے قابل اور پروفیشنل لوگوں کی یہ رپورٹ پاکستانی تاریخ میں ایک سنگِ میل ثابت ہوگی جو آنے والے برسوں میں ایک ایسی قابلِ اعتماد ڈاکیومنٹ کا کام دے گی جس کی روشنی میں نئی پالیسیاں بنا کر پاکستان کو انرجی کرائسز کے چنگل سے نکالنے میں مدد ملے گی۔ اس کمیٹی کے سب اراکین دفتری مناسب سہولتیں نہ ہونے کے باجود دل و جان سے کام میں جتے ہوئے تھے کیونکہ انہیں علم تھا کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر بڑے فیصلے ہونے تھے۔ پاکستان کے طاقتور ترین بزنس ٹائیکونز پر ہاتھ ڈالا جانا تھا۔ پاور سیکٹر کو دوبارہ نارمل کرنا تھا اور اس کا سارا انحصار ان سب کی ایمانداری اور محنت پر تھا۔
جب اس ٹیم نے اپنا کام شروع کیا تو چیئرمین کمیٹی محمد علی سے کراچی کے اسی بزنس مین نے رابطہ کیا جس نے ان کا نام قمر جاوید باجوہ کو ریکمنڈ کیا تھا۔ اس ٹائیکون کا خیال تھا کہ وہ محمد علی جس سے ان کی پرانی دعا سلام تھی‘ وہ اب لاہور کے اس بینک مالک ٹائیکون کو فکس کرنے میں مدد کر سکتا تھا جس کا اپنا پاور پلانٹ بھی تھا۔ اس رپورٹ میں اس کے خلاف لکھی چند لائنیں اس کے پرانے بدلے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی تھیں لیکن محمد علی نے انکار کر دیا۔ اس بزنس ٹائیکون کی خواہش کو مسترد کرنا محمد علی کو مہنگا پڑا۔ چند دن بعد پتا چلا کہ محمد علی کے خلاف ایک انکوائری شروع ہو گئی ہے۔ کسی نے ان پر الزام لگایا تھا کہ لاہور کے ٹائیکون کے پاور پلانٹ کی کرپشن رپورٹ میں شامل نہ کرنے کے عوض انہوں نے ایک فارم ہاؤس رشوت میں لے لیا تھا۔ کینیڈا میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آئے محمد علی بری طرح پھنس چکے تھے۔ (جاری)