pia ko plots mein adjust kia jarha hai

بجلی کیسے مہنگی ہوئی۔۔پارٹ 10۔۔

تحریر: رؤف کلاسرا۔۔

ان برسوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی ہے کہ اکثر حکمران اور بیوروکریٹس ملک و قوم کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ سب نہیں لیکن اکثریت کے نزدیک حکمرانی یا پاور ایک فرض یا ذمہ داری نہیں بلکہ لوٹ مار کا موقع ہے۔ یقینا کچھ اچھے افسران بھی ہوں گے لیکن ان کے اچھے کارنامے سامنے نہیں آ سکے۔ شریف برادران کو اچھی طرح علم تھا کہ 1994ء میں‘ بینظیر بھٹو دور میں لگائے گئے پاور پلانٹس نے ہمارا کیا حشر کیا تھا۔ 2008ء میں زرداری صاحب کے رینٹل پاور پلانٹس کا ڈرامہ بھی دو سو ارب روپے میں پڑا تھا۔ سبق سیکھنے کے بجائے 2013ء میں اقتدار ملتے ہی میاں نواز شریف اور شہباز شریف چین سے کوئلے کے پاور پلانٹس لے آئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چین نے اپنے ہاں 2014ء سے کوئلے سے بجلی بنانا بند کر دی ہے لیکن ہم وہاں سے کوئلے کے پلانٹس منگواتے رہے۔ چین نے بھی ہمیں منع نہیں کیا‘ نہ ہم نے پوچھا کہ چین جب خود کوئلے کے پاور پلانٹس بند کر رہا ہے تو ہمیں کیوں فروخت کر رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ فضائی آلودگی تھی جس نے چینیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا اور جس کا ایک موجب کوئلے کے پاور پلانٹس تھے۔ چین نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانیوں نے سوچا کوئلے کے پلانٹس سستی بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے کہ ہمارے پاس مقامی کوئلہ نہیں تھا جس سے وہ پلانٹ چلتے۔ یوں گیس اور فیول کی طرح کوئلہ بھی ڈالروں میں امپورٹ کرنا پڑا۔ یوں ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے کوئلے کی لاگت بھی بڑھی اور ساتھ ہی بجلی کا ریٹ بھی بڑھتا چلا گیا۔ مزید یہ کہ کوئلے کے پلانٹ اکثر ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں لیکن شہباز شریف نے یہ پلانٹ پنجاب کے وسط میں ساہیوال کی زرعی زمینوں کے درمیان میں لگوایا تاکہ پنجاب کے لوگ اسے دیکھ کر ووٹ دیں۔ اب کوئلے سے بھری ٹرین کراچی سے ساہیوال تک آتی ہے اور جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے اس کی کوئی خبر نہیں چلتی۔ اب ہر سال کروڑوں ڈالرز کا کوئلہ باہر سے خرید کر پاکستان لایا جاتا ہے۔

ہمارا ایک اور کرتب دیکھیں کہ نندی پور پاور پراجیکٹ‘ 2008ء میں جس کی لاگت کا تخمینہ صرف بارہ ارب روپے کا تھا‘ پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد کچھ وزیروں کی لالچ کہیں یا چپقلش کی وجہ سے دو سال اس کی فائلیں پڑی رہیں۔ صرف دو سال بعد اس کی لاگت بائیس ارب روپے ہو چکی تھی۔ میاں نواز شریف جب 2013ء میں وزیراعظم بنے تو شہباز شریف کیساتھ سیدھا چین گئے اور چین کیساتھ اسی پراجیکٹ کی تکمیل کا معاہدہ 57 ارب روپے میں پر طے کیا۔ پتہ چلا کہ چینی کمپنی تاخیر کی وجہ سے لاگت میں اضافے کے پیش نظر یہ معاہدہ 37ارب میں کر رہی تھی لیکن شریف برادران نے یہ ڈیل 57ارب روپے میں فائنل کی۔ بات یہیں نہیں رُکی بلکہ ایک دن پتہ چلا کہ وہی پراجیکٹ جس کی لاگت کا تخمینہ شروع میں 12ارب روپے تھا اُس کی لاگت پہلے 22‘ پھر 57 اور پھر 100 ارب روپے سے بھی اوپر چلی گئی۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے قرض لیا گیا‘ ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس پر سود بڑھتا چلا گیا جو بجلی کے بلوں سے ادا ہونا تھا۔ جب نندی پور پراجیکٹ مکمل ہوا تو اس میں گھپلوں کی خبریں آنے لگیں۔ اس پراجیکٹ کے ڈائریکٹر ایک بیوروکریٹ تھے اور شریف خاندان کے وفادار۔ ان پر سنگین الزامات لگے اور انہیں خود شہباز شریف نے معطل کر دیا۔ کچھ دنوں بعد اس پاور پراجیکٹ کا سارا ریکارڈ جل گیا یا جلا دیا گیا کیونکہ یہ خبر باہر نکل گئی تھی کہ نیب اس سکینڈل کی انکوائری کر رہا ہے۔ اس سکینڈل کا مرکزی ملزم افسر اُس قاری صاحب کا بیٹا تھا جس نے صدر ضیا الحق کو اپنی نعت خوانی سے متاثر کیا تھا اور اس کے بیٹے کا ڈی ایم جی کا راستہ کھل گیا تھا۔ وہ افسر کچھ دن نیب کے پاس رہا لیکن حیران کن طور پر وہ نہ صرف رہا ہوا بلکہ اسے شریفوں نے میڈل بھی عطا کیا۔ اس پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ جب عمران خان دور میں رِنگ روڈ سکینڈل آیا تو وہی افسر اس وقت پنڈی میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھا۔ نندی پور پاور پراجیکٹ کے بعد یہ اس سے منسوب دوسرا بڑا سکینڈل تھا۔ عمران خان دور میں وہ پھر گرفتار ہوا۔ خان کے ایک قریبی دوست‘ جو کبھی لندن میں خان کو ایئر پورٹ سے پک اینڈ ڈراپ اور دیگر سروسز دیا کرتے تھے اور انہی خدمات کے عوض پاکستان میں وزیر بنائے گئے تھے‘ ان کا پھڈا رنگ روڈ کی زمینوں پر ان صاحب سے ہو گیا۔ لندن والا لاڈلہ بھی وزارت سے گیا اور یہ بابو صاحب بھی جیل جا پہنچے۔ عمران خان نے کچھ دن بعد اپنے لاڈلے کو واپس وزیراعظم ہاؤس بلا لیا جبکہ وہ بابو تب بھی جیل میں تھا۔ اس کی قسمت اچھی کہ خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آگئی۔ شہباز شریف وزیراعظم بنے تو پنڈی کے اس بابو اور نندی پور کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی قسمت کھل گئی۔ اسے فوراً ایک اہم وزارت کا سیکرٹری لگا دیا گیا۔ یہ تھی ایک پاور پلانٹ کی کہانی کہ کیسے اسے سب نے مال کمانے کا ذریعہ بنایا اور جو افسران برطرف ہوئے‘ جیلوں میں گئے وہ دوبارہ اہم عہدوں پر جا بیٹھے۔

مجھے یاد ہے کہ جولائی 2013ء میں جب میاں نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو روایتی طور پر سعودی عرب جانے کے بجائے انہوں نے پہلے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک میں انرجی کا بحران ہے اور چین کی مدد سے اس بحران کو حل کرنا ہے۔ میں اس وقت دنیا ٹی وی پر شو کرتا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ اس اہم دورے کی کوریج کے لیے چین جائیں۔ اس دورے کے سب اخراجات دنیا گروپ نے خود برداشت کیے۔ نواز شریف نے صحافیوں اور دیگر اہم لوگوں کو اس دورے میں ہونے والی اہم کارروائیوں سے دور رکھنے کے لیے ایک ترکیب نکالی کہ خاندان سے باہر کسی شخص کووزیراعظم کے جہاز میں نہیں لے جایا جائے گا۔ اُس وقت کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کو بھی وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے ساتھ جہاز میں لے کر نہیں گئے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ عام فلائٹ سے چین پہنچیں۔ وہ بے چارے دھکے کھاتے دبئی کے راستے ایک دن بعد چین پہنچے۔ اگر میاں صاحب اپنے ساتھ جہاز میں فارن سیکرٹری تک کو ساتھ نہیں لے کر گئے تو اس سے اندازہ کریں کہ ان کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔ صرف خاندان کے قریبی لوگوں کو ہی وزیراعظم کے جہاز پر سیٹیں ملی تھیں۔ سرکاری افسران جو وزیراعظم کے اعتماد کے نہ تھے‘ انہیں کمرشل پروازوں سے چین جانا پڑا تھا جس سے جہاں حکومت کے بجٹ پر ٹکٹیں خریدنے کا خرچہ پڑا وہیں وہ افسران ایک دن کی تاخیر سے چین پہنچے۔خیر چین پہنچ کر ایک آدھ دن بعد ہمیں بڑی بریکنگ نیوز دی گئی کہ چین نندی پور پاور پراجیکٹ پر کام دوبارہ شروع کرنے کو تیار ہو گیا ہے جو پیپلز پارٹی دور میں بقول انکے کچھ وزیروں کی طرف سے رشوت یا حصہ مانگنے کی وجہ سے رُک گیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ چینی حکام نے بڑی مہربانی کرتے ہوئے 22ارب کے بجائے 57 ارب مانگے اور شہباز شریف نے فوراً ہاں کر دی۔ سب حیران کہ صرف دو سال کی تاخیر اتنی مہنگی پڑ رہی تھی کہ 22ارب سے پراجیکٹ فوراً 57ارب کا ہوگیا تھا۔ کسی کو علم نہ تھا کہ ان 57ارب روپے نے ابھی پاکستان پہنچ کر انڈے بچے دینے تھے اور نئے سکینڈلز ہمارے منتظر تھے۔ خیر ایک دن وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ان کے وفد سمیت ایک چینی کمپنی کے ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا جو بجلی پیدا کرتی تھی۔ نواز شریف‘ شہباز شریف اور وفد کو پاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے بریفنگ دینا شروع کی۔ بریفنگ شروع ہوتے ہی وفد کے اراکین کی آنکھیں حیرت سے کھلنا شروع ہوئیں۔ ہم صحافی لوگ بھی میاں نواز شریف‘ شہباز شریف اور ان کے وفد کے پیچھے کرسیوں پر بیٹھے وہ بریفنگ سن رہے تھے۔ ہم سب بھی حیران کہ واقعی جو ہم سن رہے تھے وہ سچ تھا یا کوئی خواب۔ (بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں