تحریر: ناصر جمال۔۔
بجلی کے بل، عوام پر بل نہیں، ایٹم بم بن کر گرے ہیں۔ کہیں پر صفر یونٹ کا بل 8000روپے ہے۔ کہیں ایک یونٹ کا بل 6812 روپے ہے۔ گھر کے بل پر مجھے 2020روپے انکم ٹیکس لگ آیا۔ اُس کے ساتھ ہی فیول ایڈجسٹمنٹ پر بھی 1878روپے انکم ٹیکس لگ کر آیا ہے۔ میں انکم ٹیکس فائلر ہوں۔ میرا مالک نان فائلر ہے۔ اگر میں یہ انکم ٹیکس دوں تو غالباً پانچ فیصد ہے۔ مگر مالک مکان کو ساڑھے سات فیصد انکم ٹیکس لگے گا۔ میں اگر یہ انکم ٹیکس بھروں تو میں اسے کیسے کلیم کروں گا۔ اسلام آباد میں تو پچاس فیصد لوگ کرائے پر رہتے ہیں۔ سرکاری ملازم، سرکاری رہائش گاہوں والے بھی اس کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں۔ میٹر، ان میں سے کسی کے نام نہیں ہے۔
میرے نیچے دوسرے کرائے دار، امریکن ایئر فورس کے ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ ان کا پینشن پر انکم ٹیکس امریکہ میں کٹتا ہے۔ وہ یہاں ٹیکس نہیں دیتے۔ جبکہ آپکی آمدن سے انکم ٹیکس ایک بار کٹتا ہے۔ مگر بجلی بلوں میں دو بار انکم ٹیکس کٹنے کا کیا مطلب ہے۔حکومت، وزارت توانائی اور ایف۔ بی۔ آر کی یہ بدمعاشی یہیں ہے۔ اس کے برعکس کے۔ الیکٹرک کے صارفین کو انکم ٹیکس تو بھیجا گیا۔ مگر فیول ایڈجسٹمنٹ پر انکم ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ میں نے اس کی تصدیق اپنے کلاس فیلو، انکم ٹیکس کمشنر سے کی۔ جو آجکل کراچی میں پوسٹنگ رکھتے ہیں۔ یہ کیسا مذاق ہے۔ مرضی کے صارفین کو چُن کر، ان کی گردن دبائی جارہی ہے۔
آپ بجلی کا بل اٹھائیں۔ میرے 1022یونٹ ہیں۔ بجلی کی قیمت 19310روپے 93پیسے ہے۔ 5928روپے فیول ایڈجسٹمنٹ ہے۔ فنانشل کاسٹ سرچارج 439روپے 3پیسے ہے۔ سہہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ3273روپے 47پیسے ہے۔ 35روپے پی ٹی وی کا ”جگا ٹیکس“ ہے۔ 3914روپے جی ایس ٹی ہے۔ 2020روپے انکم ٹیکس ہے۔ 1008روپے فیول ایڈجسٹمنٹ پر GSTہے۔ 1878روپے فیول ایڈجسٹمنٹ پر انکم ٹیکس ہے۔ اگر آپ ان سب کا شمار کریں تو 8855+9640 =18495روپے ٹوٹل بنتے ہیں۔ یہ 19310روپے کی بجلی کی قیمت پر ٹیکس ہیں۔ اور ٹوٹل بل37805کا بنتا ہے۔حضور والا، قارئین اکرام، مزہ تو آگیا ہے۔ پھر عمران خان سمیت ہر انقلابی، ہمارے اوپر الزام لگاتا ہے کہ عام ادمی ٹیکس نہیں دیتا۔
یہ تو قارئین صرف ایک پہلو ہے۔ اب دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔میرے1021یونٹ میں سے 875یونٹ تقریباً18روپے اور 146یونٹ 24روپے 33پیسے فی یونٹ کے حساب سے لگائے گئے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ یہاں بھی کیا کمال کی واردات ڈالی گئی ہے۔
دو سے تین ہفتے پہلے کی بات ہے۔ سیکرٹری پاور راشد لنگڑیال سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے انھیں کہا کہ دو کام کر دیں۔ کوئی پیسہ نہیں لگتا۔ کہنے لگے کیا۔ میں نے کہا کہ میں آئیسکو کا گڈ بوائے ہوں۔ ہمارے 99فیصد سے زائد صارفین ٹائم پر بل دیتے ہیں۔ آپ کا فرض ہے۔ ہمارے اوپر L.P.S،اتنا لگایا جائے۔ جتنا، ہماری نان، ریکوری کے اوپر کمپنی قرض لے رہی ہے۔ پورے پاکستان کا ایل۔ پی۔ ایس۔ جمع کرکے ہمارے اوپر تقسیم نہ کریں۔
دوسرے ہماری آئیسکو کی ایک’’ باسکٹ پرائس‘‘ ہے۔ ہمارا فی یونٹ بمشکل15روپے کی لاگت ہے۔ پھرآپ، مجھے 18اور 24روپے کا یونٹ کیوں لگا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ آئیسکو کے اچھے صارفین سے، حیسکو، سیپکو، میپکو، کوئٹہ، کیسکو، ٹیسکو اور پیسکو کے ڈاکے اور چوریاں کیوں وصول کررہے ہیں۔
انھوں نے ہنس کر کہا کہ پاکستان میں ایک آدمی کماتا ہے آٹھ کھاتے ہیں۔ ان سے پہلے کے تمام سیکرٹریز بھی اس ضمن میں پتلی گلی لیکر بھاگتے رہے ہیں۔ وہ بھی اُسی ڈگر پر ہیں۔ اس کا مطلب ہے یہاں سب فائر فائٹنگ کرنے آتے ہیں۔ کوئی بھی اس شعبے کو درست کرنے نہیں آتا۔ نئے وزیر خرم دستگیر کا تو پائے کھا کر ، لسی پی کر سو جانا پرانا مشغلہ ہے۔ بہتری کیا خاک آئے گی۔
قارئین۔۔اگر آئیسکو کی باسکٹ پرائس کے مطابق مجھے 15روپے فی یونٹ بجلی لگائی جاتی، تو میری بجلی کی قیمت15315 روپے بنتی ہے۔ جس کے بعد مجھ پر سب سے پہلے تو 3898روپے کا انکم ٹیکس نہ پڑتا۔ کیونکہ میرا بل 25ہزار روپے سے نیچے رہتا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر ٹیکسز کی شرح، ڈراپ ہو جاتی اور میں بیس، بائیس ہزار روپے میں بھگت جاتا۔ یعنی 15سے 17ہزار روپے کی میری بچت ہوتی۔یعنی حکومت نے مجھ سے ہر ماہ کم از کم 15ہزار روپے، میری جیب پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ جو میرے بچوں کے منہ سے نوالے چھیننے کے مترادف ہے۔ آپ اسے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ حالات میں آئیسکو 15315بل والے سے 22ہزار روپے زبردستی وصول کررہی ہے۔تاکہ وہ حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ، ملتان، پشاور اور ٹرائیبل ایریا الیکٹرک کارپوریشن میں بجلی کی بدترین چوری اور مینجمنٹ کی نااھلی کے واجبات اُن سے وصول کررہی ہے۔ جو نہ بجلی چوری کرتے ہیں۔ اور بل بھی باقاعدگی سے دیتے ہیں۔
یہاں ایک اور پہلو بھی قابل ذکر ہے۔ پاکستان میں ہائیڈل ، نیوکلیئر، سولر، ونڈپاور سستی اور مہنگی تھرمل پاور کی پیداوار ملا کر ایک فی یونٹ پرائس نکالی جاتی ہے۔ مگر پاکستان میں لوگوں اور سیٹھوں کی چوری کے ساتھ، ساتھ بابوئوں کے فری یونٹ اور ان کی نالائقیوں ، نااہلیوں، کی قیمت بھی عام صارف سے وصول کی جاتی ہے۔ بدترین اور گھٹیا پرکیورمنٹ جو کھربوں میں ہے۔ اس کا بوجھ بھی ہمارے اوپر الگ سے ہے۔ جبکہ ان کی اور حکمرانوں کی عیاشیوں، گاڑیوں اللے تللوں کے اخراجات بھی ہماری ہڈیوں سے کشید کئے جارہے ہیں۔ ہمارے بچوں کی خوارک دودھ، تعلیم، صحت، یہ سب کچھ ہڑپ کر جاتے ہیں۔
اب، ایف۔ بی۔آر۔ دعوے کرے گا۔ ہم نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ حکومت الگ سے کریڈٹ لے گی۔ ساتھ ہی الزام لگائے گی۔ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ آپ ایک سفید پوش سے 15ہزار کی بجلی پر 22ہزار روپے ٹیکس لے رہے ہو۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔ بائیس ہزار روپے 75فیصد کے قریب ٹیکس بنتا ہے۔ اتنا ٹیکس دنیا میں کہاں لیا جاتا ہے۔
آج حالات یہ ہوگئے ہیں۔ عام آبادی میں ٹرانسفارمر خراب ہوجائے تو حیسکو، پونے دو سے دو لاکھ روپے محلے والوں سے مانگتی ہے۔ حال ہی میں پیپکو اسلام آباد کے نیک نام سابقہ عسکری آفیسر، ایک ایسی مداخلت نہ کرتے تو، یہ پیسے غریب لوگوں کو دینا پڑتے۔ کوئٹہ، پشاور، حیدر آباد اور سکھر الیکٹرک میں تو بل دینے کا رواج ہی نہیں ہے۔ اور بدقسمتی سے جو بل دیتے ہیں۔ سارا بوجھ ان پر ڈال دیا جاتا ہے۔وہاں کے لائن مین قسطوں پر ایئر کنڈیشن دینے کے علاوہ پانچ ہزار روپے مہینہ پر 24 گھنٹے ایک چلانے کی سہولت بھی دیتے ہیں۔
آخر کون ہیں۔ جو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ہمارے اوپر عذاب ڈالے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے لکی مروت، بنوں میں 9 سالوں میں کم از کم 90ارب کی گیس چوری کروائی ہے۔ آج یہ نیا ملک بنانے چلے ہیں۔ قوم کو اٹھانے چلے ہیں۔ کے۔ پی حکومت نے پہلے مرکز کے بغض میں ، پھر سیاسی مقاصد کے لئے لوگوں کو کُھلی گیس چوری کی اجازت دی۔ اپنا انتظامی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر عدالتیں کوڈ پڑیں۔ ویسے اس ملک کا کمال ماڈل ہے۔ بابو بھی خوش تھے۔ وہ اپنی گیس چوریاں، یہاں ایڈجسٹ کرلیتے ہیں۔
قارئین۔۔آپ ہی بتائیں۔ یہ ملک کیسے چلے گا۔ یہاں جو ظلم کا نظام روا رکھا جارہا ہے۔ وہ اس ریاست کو برباد نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔ اگر آپ سسٹم درست نہیں کرسکتے تو، مفت کی بجلی اور گیس کےاس نظام کو ختم کریں۔ ان کمپنیوں میں ڈنڈا چلائیں۔
قارئین!!!
گذشتہ مالی سال میں حبکو پاور نے ساڑھے تین ارب کی بجلی پیدا کی۔ اس نے حکومت کو 30ارب کا بل بھیجا۔ اس میں ساڑھے چھ ارب L.P.Sاور 20ارب کپیسٹی چارجز (بند پلانٹ کے) بھیج دیئے۔ اور ہاں ریاست مدینہ کے مشیر رزاق دائود نے بھی سردیوں میں، اپنا پاور پلانٹ بند کرکے، گیس انڈسٹری کو دینے کی فراغ دلانہ، سمری ای۔ سی۔ سی۔ سے منظور کروائی۔ 45ایم ایم سی ایف ڈی گیس میں سے اطلاعات کے مطابق نصف کے قریب گیس وہ اپنے فیملی کیمیکل بزنس کے لئے، لے اڑے، اور مزے کی بات ہے۔ حکومت کو بند پلانٹ کا 2ارب روپے کا بل الگ بھجوا دیا۔ وہی ، پاک ، صاف ، کپیسٹی چارجز، ویسے، یہ عمران خان ، اسد عمر، عمر ایوب، حماد اظہر، ریاست مدینہ کے نایاب ہیرے، کہیں ڈوب، کیوں نہیں مرتے۔ چلیں! زرداری اور نواز شریف والے تو ڈاکو تھے۔ یہ ریاست مدینہ کے خلیفہ اور اس کے مشیر کیا کرامات دکھاتے رہے ہیں۔
اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ صرف ایک مہینے میں مُفتا اسماعیل اور ان کے باسز نے عوام کو کئی ارب ڈالر کا، ریاست اور سیاست کے نام پر ٹیکا لگا دیا ہے۔ اگر ایک کروڑ صارفین کو 20 ہزار کا ٹیکہ لگا ہے۔ تو 2کھرب تو ہوگئے ان کے ہاتھ، نیا فارمولہ لگ گیا ہے۔ اب کسی IMF، ورلڈ بینک کی ضرورت نہیں۔ 75فیصد ٹیکس عوام کی انتڑیوں سے نکالو، عیاشیاں کرو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ سب مہربانی کرکے مجھ سمیت تمام عوام کی چھترول کرنے والوں کی تعداد بڑھا دو۔ اسحاق ڈار کو بھی باہر سے بلالو، مفتا کو بھی اسی وزارت خزانہ میں رہنے دو، اسد عمر، شوکت ترین، جیسے اعلیٰ دماغ بھی ساتھ ملا لو۔ سب مل لڈیاں ڈالو، اور ہماری خوب چھترول کرو۔ بس ہمارا وقت ضائع نہ کرو۔ تمہاری اندھیر نگری سلامت رہے۔(ناصر جمال)۔۔