bhutto ka dour

بھٹو ازم کا دور۔۔

تحریر:ریحان مصطفی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے جہاں میں دیدہ ور پیدا

 پاکستان کے آسمانِ سیاست پر دمکتاہوا،درخشندہ ستارہ،جرات و بہادری کا استعارہ،حُب الوطنی سے سرشار دین محمدی کاپہرے دار نام ہے اس کا ذو الفقار،تاریخ کے پنوں میں اسے ذوالفقار علی بھٹو شہید لکھا گیا،جو ڈرا نہیں جو جھکا نہیں،جیل کی سلاخیں اس کا کچھ بگاڑ سکیں نہ پھانسی کاپھندا اُس کی آواز دبا سکاجو پائندہ ہے تابندہ ہے جو مرکر بھی زندہ ہے۔

آج پانچ جنوری 2024 ہے آج سے ٹھیک 96برس قبل 5جنوری 1928کوراجپوت فیملی کایہ سپوت خان بہادر شاہنواز بھٹو کے گھر پیدا ہوا،کون جانتا تھا کہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کرپیدا ہونے والا یہ بچہ پاکستان کے غریب عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے گا،کون جانتا تھا کہ وہ عالم اسلام کوایک پلیٹ فارم پرلاکرمسلم امہ کا عظیم رہنماقرار پائے گا۔

 وزیر خارجہ بنے گاتو دنیا بھر کوقائل کر ڈالے گا،سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے گاتو قوم کوترقی کی اُن منظم راہوں پرڈال دے گاجو بجا طور پروطن عزیز کو عالم اسلام کی قیادت کااہل بنا دے گا،صدر بنے گاتو ریاست کی ایسی سربراہی کرے گاکہ سیاست دان انگشت بدندناں رہ جائیں گے،،اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ مختلف عہدوں پراپنی فہم و فراست کالوہا منوانے والے اِس نوجوان نے ایک ایسی جماعت کی بنیاد ڈالی جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی ذو الفقار علی بھٹو،،بھٹو صاحب بن کرعوام کے دلوں کی چاہت بن گئے،عوام کے لیے راحت بن گئے۔ مگر پاکستانی سیاست کی ستم ظریفی دیکھئیے کہ عوام کے دلوں میں بسنے والے غریبوں کی آواز

 بننے والے اِس عظیم لیڈر کوپابند سلاسل کیاگیا اُس پر الزمات لگائے گئے اسے جھکانے کے لیے تنہائی کازہر پلایا گیا اس کے بچوں کو رُلا یا گیا اسے سولی سے ڈرایا گیا۔

مگر حق کے پرستار اس مرد آہن نے تو جیسے جھکنا سیکھا ہی نہیں تھا اسے اقتدار کے ایوانوں میں چین لینے دیا گیا نہ سیاست کے میدان میں رہنے دیا گیاوہ اپنی جان دے کرعوام کو عزم دے گیا،حوصلہ دے گیا،ملک کو عزت دے گیا،متفقہ آئین دے گیا،یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بھٹو صاحب پاکستانی سیاست کے محسن ہیں،سیاست کے بدلتے رنگ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دور بھٹو از م کا دور ہے یہ سیاست ذو الفقاری سیاست کا دور ہے

اس میدانِ سیاست میں کامیاب ہوناہے توبھٹو کے نقش قدم پرچلتے ہوئے عوام کے قریب رہنا ہوگاان کے دلوں کی آواز بننا ہوگاسولی ہویا سیاست کایہ اُلجھتا ہوا کھیل زندہ وہی رہے گاجو ڈٹ جائے گاعوام کے لیے لڑ جائے گا

بھٹو ازم ہے،بھٹو آواز ہے،بھٹو انقلاب ہے بھٹو لاجواب تھا بھٹو لاجواب ہے اس تابندہ ستارے کوبزور طاقت ڈبو تو دیا گیامگر اس کی کرنیں آج بھی ہرطرف جگمگارہی ہیں اور ہر طر ف سے یہی آواز آرہی ہے۔۔تم کیاسمجھے اس نے مجھے ڈبویا ہے۔مجھ کومارکے قاتل خود بھی رویاہے۔۔(ریحان مصطفیٰ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں