crime free city

بوڑھوں کا ملک

تحریر: جاوید چودھری۔۔

جاپانی لوگ جھوٹ نہیں بولتے لہٰذا دوسروں کی ہر بات کو سچ مان لیتے ہیں مگر ہم پاکستانی بڑی مشکل سے انھیں یقین دلاتے چلے آ رہے ہیںتم لوگ ہماری بات کو ڈبل چیک ضرور کر لیا کرو لہٰذا یہ بھی اب ہماری باتوں پر کم کم یقین کرتے ہیں ‘جاپان میں ریٹس پورے ملک میں یکساں ہیں‘ آپ ائیرپورٹ سے کوئی چیز خریدیں یا گلی محلے کی دکان سے لیں ریٹ اور کوالٹی ایک ہو گی۔

آپ اگر دکان سے زیادہ چیزیں خرید رہے ہوں گے تو سیلز مین یا مالک آپ کے پاس آئے گا اور آپ کو سمجھائے گا آپ ضرورت سے زیادہ چیزیں نہ خریدیں‘ یہ فضول خرچی ہے‘ وہ آپ کو یہ بھی بتا دے گا اگلے ہفتے سیل لگ رہی ہے یا قیمتیں کم ہو رہی ہیں‘ آپ آج صرف ضرورت کی خریداری کر لیں باقی اشیاء اگلے ہفتے لے لیجیے گا۔مجھے جوتوں کا جاپانی برینڈ ایسکس (Asics) انتہائی پسند ہے‘ میں جوتا خریدنے گیا تو سیلز گرل نے مجھے قائل کرنا شروع کر دیا آپ کے موجودہ جوتے ٹھیک ٹھاک ہیں‘ آپ نیا نہ خریدیں‘ اس نے نئے کے بجائے جوتے کا اندرونی استر تبدیل کرنے کے لیے دلائل دینا بھی شروع کر دیے‘ یہ حرکت میرے لیے حیران کن تھی‘ ریستورانوں میں بھی آرڈر ٹیکر گاہکوں کو بتاتے ہیں آپ ضرورت سے زیادہ آرڈر دے رہے ہیں‘آپ کا کھانا ضایع ہو جائے گا‘ یہ لوگ کھانا کم کھاتے ہیں‘ واک زیادہ کرتے ہیں‘ سادگی اختیار کرتے ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے لہٰذا ان کی عمریں لمبی ہوتی ہیں۔

جاپان کی 60 فیصد آبادی کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے‘ دنیا میں سب سے زیادہ بوڑھے بھی جاپان میں ہیں اور یہ ورکنگ کنڈیشن میں بھی ہیں‘ جاپانی کام کرنے کے عادی ہیں لہٰذا مرنے تک کام کرتے ہیں‘ جس کمپنی میں ملازم ہو جائیں اس میں ریٹائرمنٹ تک رہتے ہیں‘ نوکری تبدیل نہیں کرتے‘ 65سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں اور اس کے بعد آدھی تنخواہ پر دوبارہ کام شروع کر دیتے ہیں اگر وہ کام بھی ختم ہو جائے تو یہ تیسری نوکری شروع کر دیتے ہیں‘ بزنس کی جگہ ملازمت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ملک میں دس فیصد لوگ بزنس مین اور نوے فیصد ملازم ہیں‘ آپ اگر جاپانیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ انھیں کام سے چھٹی دے دیں یہ رو رو کر مر جائیں گے‘ دو سال پہلے جاپان میں 9 چھٹیاں اکٹھی آ گئی تھیں‘ لوگوں نے یہ خبر سن کر دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا تھا‘ ان کا کہنا تھا ہم 9 دن کیا کریں گے؟

یہ لوگ دفتر سے آنے کے بعد گھاس کاٹنا یا دوسروں کے میز صاف کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن فارغ نہیں بیٹھتے‘ حکومت کے ہر حکم پر عمل کرتے ہیں‘ حکومت نے اگر حکم دے دیا آپ دس لیٹر سے زیادہ پٹرول نہ خریدیں تو یہ تین تین گھنٹے لائین میں لگ کر صرف دس لیٹر پٹرول لیں گے‘ مرد اپنی پوری تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں اور بیوی گھر اور خاوند دونوں کے اخراجات چلاتی ہے‘ موبائل فون سائیلنٹ رکھتے ہیں۔مجھے آٹھ دنوں میں کسی جگہ موبائل فون کی گھنٹی سنائی نہیں دی تاہم جاپان کے ہر موبائل فون کے کیمرے کے شٹر کی آواز آتی ہے تاکہ کوئی شخص‘ کسی شخص کی اجازت کے بغیر اس کی تصویر نہ کھینچ سکے‘ دفتروں میں موبائل فون استعمال نہیں کرتے‘ آہستہ بولتے ہیں‘ سرگوشی کرتے ہیں‘ میں آٹھ دن اونچی آواز کو ترستا رہا‘ ہاتھ نہیں ملاتے‘ جھک کر ملتے ہیں اور بس۔

یہ لوگ دوسرے کے ساتھ بھی بات نہیں کرتے‘ دفتر سے نکل کر پب جاتے ہیں‘ بیئر پیتے ہیں‘ تکے کھاتے ہیں اور کھل کر ایک دوسرے کے ساتھ گپ لگاتے ہیں ‘ گھر واپس جاتے ہیں اور دوبارہ خاموش ہو جاتے ہیں‘ گھر چھوٹے ہیں لہٰذا ازدواجی تعلقات کے لیے پورے جاپان میں ’’لو (Love) ہوٹل‘‘ بنے ہیں‘ میاں بیوی چند گھنٹوں کے لیے وہاں چلے جاتے ہیں اور نہا دھو کر واپس آ جاتے ہیں‘ عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے ساتھ بلا وجہ فری نہیں ہوتے‘ مذہبی اور سیاسی گفتگو بالکل نہیں کرتے‘ سیاح پاسپورٹ دکھا کر کسی بھی دکان سے ڈیوٹی فری اشیاء خرید سکتے ہیں جب کہ باقی ملکوں میں یہ سہولت صرف ائیرپورٹس پر دستیاب ہوتی ہے‘ احتساب بہت زیادہ ہے۔

اکتوبر 2016میںٹوکیومیں دس منٹ بجلی گئی تھی‘ بجلی کا وزیر20 منٹ ندامت سے سرجھکا کر کھڑا رہا‘ مردانہ معاشرہ ہے‘ مردوں کی تنخواہیں آج بھی عورتوں سے زیادہ ہوتی ہیں‘ تنخواہوں کا تعین بھی عمر اور ضرورت کے مطابق ہوتا ہے اگر کسی شخص کی ضرورت کم ہے تو اسے کم معاوضہ ملے گا اور اگر ذمے داریاں زیادہ ہیں تو اس کی تنخواہ بڑھ جائے گی اور یہ فیصلہ کمپنی خود کرتی ہے‘ ملازم کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرتا‘ شادی سے قبل دولہا اپنے اخراجات کا تخمینہ لگاتا ہے‘ اسے اپنے مہمانوں پر فی کس تقسیم کرتا ہے اور پھر کارڈز پر باقاعدہ پرنٹ کر کے بھجواتا ہے آپ مہربانی فرما کر فی کس اتنے پیسے ساتھ لے کر آیے گا اور مہمان ہوٹل پہنچ کر اپنا لفافہ کائونٹر پر جمع کرا کر ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ہوٹل آخر میں اپنی پے منٹ کاٹ کر باقی رقم دولہے اور دولہن کو ادا کر دیتے ہیں اور نیا جوڑا اس سے ہنی مون مناتا ہے‘ سرکاری ٹھیکوں میں کک بیکس لیگل ہیں‘ ایک کمپنی ٹھیکہ حاصل کرتی ہے‘ وہ دس فیصد اپنے پاس رکھ کر کام دوسری کمپنی کو دے دیتی ہے‘ وہ کمپنی مزید دس فیصد کاٹ کر تیسری کمپنی کو کام دے دیتی ہے اور وہ اپنا دس فیصد رکھ کر کام آگے کھسکا دیتی ہے اور یوں آخر میں 50 فیصد رقم رہ جاتی ہے لیکن آپ جاپان کا کمال دیکھیں‘ کمیشن لینے والی تمام کمپنیاں کام شروع ہونے کے بعد ڈیلیوری کمپنی پر نظر رکھتی ہیں۔

یہ کمپنیاں پوری تسلی کرتی ہیں کام اسٹینڈرڈ کے مطابق اور پورا ہونا چاہیے اور جب کام مکمل ہو جاتا ہے تو تمام کمپنیاں افتتاح کے وقت موجود ہوتی ہیں‘ ٹرینیں انتہائی صاف ستھری‘ سبک رفتار اور ٹائم کی پابند ہیں‘ ٹرین لیٹ ہونے کا تصور بھی محال ہے‘ پلیٹ فارم اور ٹرین کے درمیان شیشے کی دیوار اور دروازے ہوتے ہیں تاکہ کوئی شخص یا بیگ پٹڑی پر گر نہ سکے۔

فرش پر ڈبوں کے نمبر لکھے ہوتے ہیں اور تمام ڈبے ٹھیک اپنے اپنے نمبر پر رکتے ہیں اور اس کے بعد ٹرین اور پلیٹ فارم کا دروازہ کھلتا ہے اور لوگ چند سیکنڈ میں اتر اور چڑھ جاتے ہیں‘ ڈبے انتہائی صاف اور خوشبو دار ہوتے ہیں‘ لوگ اپنا کچرا ساتھ لے کر جاتے ہیں‘ ٹرین کے واش رومز فائیو اسٹار ہوٹلوں سے زیادہ صاف ہوتے ہیں‘ مجھے آٹھ دنوں میں محسوس ہوا صفائی مسلمانوں کے لیے نصف لیکن جاپانیوں کے لیے مکمل ایمان ہے اور یہ لوگ مکمل ایمان داری کے ساتھ اس ایمان پر پورے اترتے ہیں۔

جاپانیوں میں چار ہزار خوبیاں ہیں لیکن دو خوف ناک خامیاں بھی ہیں‘ یہ لوگ الگ تھلگ اور خاموش رہتے ہیں چناں چہ ان کے اندر بے تحاشا گھٹن ہوتی ہے شاید اسی لیے دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں جاپان میں ہوتی ہیں‘ جاپان میں ہر سال 40 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں‘ یہ لوگ اپنی موت کے دن کا تعین بھی خود کرتے ہیں اور مرنے سے پہلے اپنے تمام دوست احباب اور عزیز رشتے داروں کو بتا دیتے ہیں‘ آپ فلاں دن خالی رکھیے گا‘ اس دن میرے گھر میں پارٹی ہو گی اور یہ اس دن خودکشی کر لیتے ہیں۔ملک میں ’’سوسائیڈ فاریسٹ‘‘ بھی ہیں‘ لوگ ان جنگلوں میں بھی نکل جاتے ہیں اور پھر ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے‘ مجھے فیوجی کے راستے میں ایک جنگل بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ لوگ ماضی میں اپنے بوڑھے والدین کو اس جنگل میں درختوں کے ساتھ باندھ جاتے تھے اور وہ بھوک اور پیاس سے جان دے دیتے تھے اور ان کی لاشیں جنگلی جانور کھا جاتے تھے‘ پورے ملک میں امن وامان ہے‘ پولیس کسی جگہ دکھائی نہیں دیتی‘ یہ تھانوں میں بیٹھ کرا سمارٹ کیمروں سے شہروں پر نظر رکھتی ہے‘ چوری چکاری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

آپ کسی جگہ سامان چھوڑ دیں‘ دس دن بعد بھی آپ کا سامان وہیں ہو گا یا پھر آپ کو ’’لاسٹ اینڈ فائونڈ کاؤنٹر‘‘ سے مل جائے گا‘ جاپانی ڈی این اے میں فراڈ کا دھاگا سرے سے موجود نہیں‘ یہ لوگ فراڈ کر ہی نہیں سکتے اور اگر کریں گے تو دوسرے دن خود ہی آ کر اعتراف جرم کر لیں گے‘ یہ روز باتھ ٹب میں باتھ لیتے ہیں‘ آدھ گھنٹہ پانی میں لیٹنا ان کے لیے عبادت کا درجہ رکھتا ہے‘ جاپانی کموڈ پوری دنیا سے مختلف ہیں‘ کموڈ کی سیٹ گرم ہوتی ہے‘ اس کے ساتھ صفائی کے بٹن ہوتے ہیں‘ آپ بٹن دبائیں‘ پانی کی پھوار آئے گی اور آپ کو صاف کر دے گی‘ مسلم شاور کی ضرورت نہیں پڑے گی۔گھروں کے دروازے عموماً کھلے رہتے ہیں‘ گھروں اور فلیٹس کے پیچھے سبزے کی گنجائش ہوتی ہے‘ اپنے کپڑے خود دھوتے ہیں‘ لان کی گھاس بھی خود کاٹتے ہیں‘ چلتے پھرتے کھاتے نہیں ہیں‘ ملک کی 99 فیصد آبادی کندھوں یا پشت پر بیگ لٹکا کر باہر نکلتی ہے‘ بارشیں زیادہ ہوتی ہیں چناں چہ آپ کو پورے ملک میں درخت‘ گھاس اور پھول نظر آتے ہیں۔

زیبرا کراسنگ کے علاوہ سڑک کراس نہیں کرتے‘ قطار کسی جگہ نہیں ٹوٹتی‘ ٹوکیو کی ایک چوتھائی آبادی صبح کے وقت باہر سے آتی اور شام کے وقت شہر سے واپس چلی جاتی ہے چناں چہ صبح اور شام کے اوقات میں انڈر گراؤنڈ ٹرینیں بھری ملتی ہیں‘ ان میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور لوگوں کو باقاعدہ دبا دبا کر ٹرین میں بھرا جاتا ہے اور آخری بات مجھے کسی صاحب نے بتایا آپ کو دنیا کے کسی حصے میں جاپانی بھکاری اور طوائف نہیں ملے گی۔جاپانی عورتیں اگر دھندہ بھی کریں گی تو صرف جاپان میں کریں گی خواہ یہ بھوکی ہی کیوں نہ مر جائیں اور کوئی جاپانی شخص کسی جاپانی شخص کو بھیک نہیں دیتا‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ اسے جاپان کی توہین سمجھتے ہیں‘ ان کا خیال ہے جو جاپانی مشکل وقت کے لیے رقم بچا کر نہ رکھے اسے مر جانا چاہیے‘ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔(بشکریہ ایکسپریس)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں