تحریر: محمد بلال غوری۔۔
پاکستان میں پہلا مارشل لا نافذ ہونے کے بعد عہد ایوب میں سنسر شپ کے نت نئے انداز متعارف کروائے گئے تو افواہیں پھیلانے کو بھی جرم قرار دیدیا گیا۔ قرۃالعین پریشانی کے عالم میں ایوب خان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کے دفتر جا پہنچیں۔ بال بکھرے ہوئے،چہرہ اداس، آنکھیں پریشان۔ آتے ہی کہنے لگیں:’’اب کیا ہوگا؟‘‘ قدرت اللہ نے وضاحت طلب کی، کس بات کا کیا ہوگا؟ قرۃالعین نے کہا:’’میرا مطلب ہے اب ادبی چانڈوخانوں میں بیٹھ کر لوز ٹاک کرنا (یعنی گپیں ہانکنا) بھی جرم ٹھہرا۔‘‘ قدرت اللہ شہاب نے انکی تشویش کو درست قرار دیتے ہوئے کہا:’’ہاں ،گپ شپ بڑی آسانی سے افواہ سازی کے زمرے میں آکر گردن زدنی قرار دی جا سکتی ہے۔‘‘قرۃالعین کو جیسے یقین نہیں آرہا تھا، انہوں نے نہایت کرب سے انداز بدل کر پھر سوال کیا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘ قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے مارشل لا ضابطے کے تحت بھونکنے کے خدشات و خطرات کی کچھ وضاحت کی تو عینی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کسی قدر لاپروائی سے کہا ،’’ارے بھائی،روز روز کون بھونکنا چاہتا ہے۔لیکن بھونکنے کی آزادی کا احساس بھی تو ایک عجیب نعمت ہے۔‘‘ سلیم احمد جدید اردو ادب کے وہ منفرد نثرنگار اور صاحب طرز شاعر ہیں جنہوں نے اپنے عہد کی فضا کو تنقیدی اور تخلیقی سطح پر بیحدمتاثر کیا۔ انہوں نے کراچی سے شائع ہونیوالے ادبی جریدے ماہنامہ ساقی کے جون 1951ء کے شمارے میں ایک مضمون لکھا جسکا عنوان تھا’’آزادی رائے کو بھونکنے دوـ‘‘۔بعد ازاں جمال پانی پتی نے ’’مضامین سلیم احمد‘‘کے نام سے ان کی تحریریں مرتب کیں تو یہ مضمون بھی شامل کیا۔اکادمی بازیافت کے زیر انتظام شائع ہونے والی یہ کتاب اور سلیم احمد کا مضمون یوں یاد آیا کہ ’’بھونکنے کی آزادی‘‘ واقعی بہت خوبصورت احساس ہے لیکن بدقسمتی سے اب اس آزادی کا مفہوم اور معانی بدل گئے ہیں۔بالخصوص سوشل میڈیا پر ہیجان خیزی کا یہ عالم ہے کہ اکثر اوقات بدتہذیبی کے باعث طبیعت مکدر ہوجاتی ہے۔ دل چاہتا ہے ،یہ سب گندے اُٹھا کر کوڑا دان میں پھینک دیئے جائیں۔ نہ دلیل، نہ حوالہ ،نہ سوال، نہ جواب بس خودکش حملہ آور کی طرح آتے ہیں اور پھٹ جاتے ہیں۔ سبکدوش ہونیوالے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر لکھے کالم میں انکا سابق چیف جسٹس صاحبان سے موازنہ کیا تو کسی شوریدہ سر قاری نے فتویٰ صادر فرماتے ہوئے کہا، جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس ملک قیوم کو اسلئے بھول گئے کہ وہ آپ کے مالکوں کے منظور نظر تھے۔اب پتہ نہیں وہ صاحب اپنے تئیں کس کو مالک قرار دے رہے ہیں مگر کالم پڑھنے کی جسارت کی ہوتی تو معلوم پڑتا کہ جج صاحبان کی بات نہیں ہورہی بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کا ذکر ہورہا ہے۔بعض اوقات تو آپ کی پوسٹ پر کوئی منطقی بات کرنے کے بجائے محض لفافہ یا اس نوعیت کے القابات تحریر کردیئے جاتے ہیں، جنہیں یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا۔حتیٰ کہ آپ کوئی تصویر یا غیر سیاسی نوعیت کی پوسٹ شیئر کردیں توتَبَرّاکرنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بھی سننے یا پڑھنے کا روادار نہیں، بس اپنی بھڑاس نکالنے کا خواہاں ہے۔مکالمہ تو کیا یہاں مناظرے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ نوجوان اس رویے کو بدکلامی سمجھنے کے بجائے سیاسی شعور تصور کرتے ہیں اور اگر انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ کہتے ہیں چور کو چور نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ طفلان انقلاب کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ انکے ہاں بدتمیزی کو بہادری سمجھا جاتا ہے، بدتہذیبی کو حق گوئی کا نام دیا جاتا ہے،دشنام طرازی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،مغلظات کو استحقاق تصور کیا جاتا ہے اور ہراساں کرنے کو سیاسی حکمت عملی قرار دیا جاتا ہے۔ افسوس، ایک نسل کو مذہبی جماعتوں نے بگاڑ دیا تو دوسری نسل کو سیاسی جماعتوں نے دولے شاہ کا چوہا بنا ڈالا۔ اب چار سو ایسے بونوں کی بہتات ہے جن کا علم بہت واجبی سا ہے، انکی تحقیق ایسے یوٹیوبرز تک محدود ہے جو ویوز حاصل کرنے کیلئے پانی میں آگ لگانے سے باز نہیں آتے۔وہ اِدھر اُدھر سے آدھی ادھوری معلومات لیتے ہیں اور اپنے سیاسی بیانئے کی آنچ پر دانشوری کی ہانڈی پکانا شروع کردیتے ہیں۔ انواع اقسام کے مصالحہ جات سے تیار کی گئی یہ ہانڈی خواہ جل سڑ ہی کیوں نہ گئی ہو،اسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر انڈیل دیا جاتا ہے۔ نئے نویلے باورچی کسی سے یہ پوچھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے کہ پکوان کیسا لگا۔ انہیں تو اس بات کی جلدی ہوتی ہے کہ دانشوری کی اس ہانڈی کو پھر سے ابلنے کے لئے آگ پر رکھ دیا جائے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ نوجوان اپنی ہانڈی خود تناول فرمانے کے بعد آتے ہیں اور کسی علمی و ادبی گفتگو کے دوران اچانک قے کرکے فضا کو آلودہ کر جاتے ہیں۔ یقیناً آپ کو بھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ اشتعال انگیزی کا یہ سیلاب اس قدر منہ زور ہے کہ بسااوقات غصے پر قابو نہیں رہتا اور نہایت عرق ریزی سے اپنائی گئی تہذیب و شائستگی ترک کرکے پولیس کانسٹیبل شاہد جٹ بننے کو دل کرتا ہے ۔مگر پھر معقولیت غالب آجاتی ہے اور ایسے ذہنی مریضوں کو محض ’’بلاک‘‘کرنے پر اکتفا کرلیتا ہوں۔
بعض پڑھنے اور سننے والے بتاتے ہیں کہ ہم اس خوف سے سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر پاتے کہ ’’بھونکنے کی آزادی‘‘پر یقین رکھنے والے کہیں توپوں کا رُخ ہماری طرف نہ کرلیں۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اپنے مخالفین کی سرکوبی کیلئے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں اسلئے ذہنی مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہیجان خیزی اور برانگیختگی بڑھتی جاتی ہے۔شاہد جٹ تو عبث بدنام ہوگیا ورنہ یہاں ہر شخص دل میں طوفاں چھپائے پھرتا ہے۔(بشکریہ جنگ)۔