تحریر: مسرور احمد
بھارت میں پانچ صوبوں کی ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔گوا، مانی پور، اتر پردیش اور اتر کھنڈ میں بی جے پی جبکہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے امیدواروں نے میدان مار کر سب کو حیران کر دیاہے۔ بھارتی صوبے اتر پردیش (یو پی)کو وہاں سیاست میں وہی مقام حاصل ہے جو پاکستان میں صوبہ پنجاب کوہے کیونکہ چوبیس کروڑسے زائد کی آبادی کے ساتھ یو پی انڈیاکا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی یو پی میں ہی بستی ہے جو یو پی کی کل آبادی کا بیس فیصدیعنی پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ 2017 میں یو پی کے ریاستی انتخابات میں جہاں صرف چوبیس (24) مسلمان امیدوار کامیاب ٹھہرے تھے، اس مرتبہ جیتنے والے مسلمان امیدواروں کی تعداد چھتیس (36) ہے۔ گوا میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 9 فیصد، اتر کھنڈ میں چودہ فیصدجبکہ بھارتی پنجاب کی کل آبادی میں دو فیصد مسلمان ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آزادی کے وقت قتل و غارت اور فسادات کے ذریعے غیر مسلم آبادی کا ایسے صفایا کیا کہ پاکستانی پنجاب جہاں سکھ بڑی تعداد میں مقیم تھے اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے جبکہ بھارتی پنجاب کے ہر ضلع میں آج بھی ہزاروں مسلمان خاندان قیام پزیر ہیں جبکہ بھارتی پنجاب کے ضلع سنگرور کی کل آبادی میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب گیارہ فیصد ہے جس کی ایک تحصیل ملیرکوٹلہ میں ستر فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ملیر کوٹلہ سے ایک مسلمان خاتون سیاست دان رضیہ سلطانہ کانگریس کے ٹکٹ پر متعدد بار ریاستی الیکشن جیتنے کے ساتھ بھارتی پنجاب کی کابینہ کا بھی حصہ رہ چکی ہیں۔اس مرتبہ عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر جمیل الرحمٰن نے رضیہ سلطانہ کو شکست دے کر ملیر کوٹلہ سے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پنجاب میں پہلی مرتبہ عام آدمی پارٹی حکومت بنانے جا رہی ہے اور اس نے کل 117نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں سے 92 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی پنجاب واقعی میں اب بدل رہا ہے۔ اتر کھنڈ کے ریاستی انتخابات میں اس دفعہ تین مسلمان امیدوار الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے جبکہ پچھلے الیکشن میں دو مسلمان امیدوار کامیاب ہو سکے تھے۔ جیتنے والے دو امیدواروں شہزاد اور ثروت کریم انصاری کا تعلق بہوجن سماج پارٹی سے ہے اور ایک امیدوار فرقان احمد کا تعلق کانگریس سے ہے۔ شہزاد نے اپنے مدمقابل بی جے پی کے امیدوار سنجے گپتا جبکہ فرقان احمد نے بی جے پی کے امیدوار منیش کمار کو بھاری مارجن سے شکست دی ہے۔ بھارتی ریاست مانی پورجہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب نو فیصد ہے میں بھی تین مسلم امیدواروں نے ریاستی الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔شیخ نور الحسن نے نیشنل پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بی جے پی کے امیدوار اندرجیت سنگھ، جنتا دل پارٹی کے امیدوار محمد عبدل ناصر نے بی جے پی کے مسلم امیدوار انتاس خان جبکہ محمد عاقب الدین نے جنتا دل کے پلیٹ فارم پر بی جے پی کے امیدوار بڈھاچندرا سنگھ کو شکست دے کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اتر پردیش کے ریاستی انتخابات میں جہاں مذہبی منافرت زوروں پر رہتی ہے چھتیس مسلمانوں کی کامیابی کو مبصرین حیران کن اور حوصلہ افزا صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ اس ریاست میں پچھلے چند سالوں سے بی جے پی کے پچھلے اور آئندہ کیلئے وزارت اعلیٰ کے متوقع امیدوار یوگی ادتیا ناتھ نے مذہبی بنیادوں پر سیاست کو بہت فروغ دیا ہے جس سے یو پی کے مسلمان نالاں ہیں۔ یو پی سے جیتنے والے تمام مسلم امیدواروں کا تعلق اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی سے ہے۔ ریسرچ انسٹیٹیوٹ برائے سماجی علوم سی ایس ڈی کے مطابق اس الیکشن میں 54فیصد ہندوؤں نے بی جے پی کو جبکہ 79فیصد مسلمانوں نے بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیا ہے۔ماضی میں مسلمانوں کا ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہو جاتا تھالیکن اس بار بی جے پی کی نفرت کی سیاست نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ہے۔خوشگوار تبدیلی یہ ہے کہ اس مرتبہ بہت سے ہندو ووٹروں نے بھی یو پی میں مسلمان امیدواروں کو ووٹ دیا ہے۔2017 کے الیکشن میں بی جے پی نے ایک بھی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا لیکن بہرحال اس مرتبہ بی جے پی نے کئی مسلمان امیدوار بھی میدان میں اتارے لیکن شائد مسلمان سابقہ رویے کی وجہ سے بی جے پی کو پسند نہیں کرتے اور انھوں نے سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کو جیتنے میں مدد دی۔ اپنے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے یو پی ایک اہم اور فیصلہ کن انتخابی میدان سمجھا جاتا ہے جہاں ریاستی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 403، لوک سبھا کی80 اور ووٹروں کی تعداد پندرہ کروڑ سے بھی ذیادہ ہے اور یہاں مسلمانوں کے ووٹ کو گیم چینجر سمجھا جاتا ہے۔اسی اہمیت کے پیش نظر وزیر اعظم نریندر مودی نے الیکشن کے دنوں میں یو پی کا ایک درجن مرتبہ دورہ کیا۔2017 کے انتخابات میں جہاں بی جے پی نے 325 نشستیں حاصل کی تھیں اس بار انھیں 255 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ بی جے پی کی مقبولیت میں اب دراڑ پڑ رہی ہے۔سماج وادی پارٹی نے جہاں 2017 کے الیکشن میں 47سیٹوں پر یو پی میں کامیابی حاصل کی تھی اس بار 111 نشستوں پر کامیاب ٹھہری ہے۔ تاہم اسد الدین اویسی کی پارٹی مجلس وحدت المسلمین یو پی میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر پائی ہے۔ایک اوردلچسپ بات یہ ہے کہ دیوبند جہاں ستر فیصد تعداد مسلمانوں کی ہے وہاں بھی بی جے پی کے ہندو امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔اس مرتبہ یوپی کے ریاستی انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے 64،بہوجن سماج پارٹی نے 88اور اسد الدین اویسی کی پارٹی نے60 مسلمان امیدوار میدان میں اتارے تھے۔گو تقسیم کے بعد بھارتی مسلمان ہندو سماج میں ماضی والا مقام اور رتبہ تو حاصل نہیں کر سکے لیکن وہ انڈیا کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جن کی مجموعی تعداد اب بھی پاکستان سے زیادہ یا برابر ہے اور وہ انڈیا کی کل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مڈل ایسٹ سمیت دنیا کے اکثر ملک سفارتی سطح پر بھارت کے بارے میں پاکستانی مؤقف کو کھل کر تسلیم نہیں کرتے۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ منفی سیاست کا شکار رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بھارت مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی والا ملک ہے جس کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہمارے مفاد میں ہیں۔ گو بھارتی مسلمان سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں وہاں کام کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں وہاں کے مسلمانوں کو اکثر مسائل پیش آتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر انڈیا اور پاکستان قائد اعظم کی خواہش کے مطابق کینیڈا اور امریکہ طرح اچھے ہمسائے بن کر رہتے تو اس خطے سے غربت سمیت دیگر سماجی مسائل حل ہو چکے ہوتے۔موجودہ صورتحال میں بھارتی مسلمانوں کو سیاست اور دیگر شعبوں سمیت اپنی تمام تر توجہ تعلیم، پیشہ ورانہ مہارتوں میں اضافے اور کاروبار کی طرف لگا تے ہوئے ایک پر امن اور ترقی پسند انڈین کی شناخت بنا نا ہو گی تبھی وہ بھارتی معاشرے میں قابل فخر مقام حا صل کر سکتے ہیں۔(مسرور احمد)