apne khuab ki tabeer par samjhota mat kijiye

بھلا مدینہ میں بھی کوئی اجنبی ہوتا ہے۔۔

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔

شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی” مہر مبارک” سے مشروط “مدینے کا سفر” بڑے نصیب کی بات ہے۔۔ادھر دربار رسالت مآب سے منظوری ہوتی،ادھر “بلاوا”آجاتا ہے۔۔لمحوں میں برسوں سے سوئے نصیب جاگ اٹھتے ہیں۔۔”ضیوف الرسول “بڑے ہی مقبول لوگ ہوتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے “مہمانان گرامی”کی فہرست میں نام آجائے تو اس سے بڑی خوش بختی کیا ہو سکتی ہے؟؟؟کچھ ایسے ہی ایمان افروز مناظر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو لاہور پریس کلب کے نثار عثمانی آڈیٹوریم میں دیکھنے کو ملے جہاں” محفل حسن قرآن و نعت”سجی اور شملہ پہاڑی کے درودیوار آیات مبارکہ کی صدائوں سے چہک اور گل ہائے عقیدت سے مہک اٹھے۔۔تڑپ ہو تو” مدینے سے بلاوا” آہی جاتا ہے ۔۔در اقدس پر حاضری کے خواب کی تعبیر”پنکھڑی” طرح پھوٹتی اور خزاں رسیدہ زندگی کو بہار کر دیتی ہے۔۔لاہور پریس کلب کے لائف ممبر جناب یاسین مغل مجھے اس بابرکت تقریب سے دو روز پہلے اتفاقا کلب کے دروازے پر ملے۔۔میں نے پوچھا نارووال تو نہیں جا رہے۔؟کہنے لگے عید آرہی، پروگرام تو ہے۔۔میں نے کہا کہ پرسوں ‘شب قرآن” پر عمرے کے ٹکٹوں کی قرعہ اندازی ہے۔۔ٹھہر جائیں کیا پتہ آپ” مدینے کے مسافر” ٹھہریں۔۔پھر وہ مجلس میں سب سے آگے بیٹھے جھوم رہے تھے۔۔صدر لاہور پریس کلب جناب ارشد انصاری نے قرعہ نکالا تو لائف ممبر یاسین مغل ہی خوش نصیب ٹھہرے۔۔وہ بچوں کی طرح سسکیاں لے لے کر رو دیے اور حاضرین کو بھی رلا دیا۔۔اس سے پہلے نعت گو شاعر جناب سید سلمان گیلانی نے پرچی نکالی تو کونسل ممبر جناب احمد یار جنجوعہ خوش قسمت قرار پائے۔۔وہ سٹیج پر آئے تو ان کی آنکھیں بھی چھلک رہی تھیں۔۔برادرم محمد عبداللہ نے جنجوعہ صاحب کی تڑپ کا واقعہ سنایا کہ وہ ہمارے دوست اور پی ٹی وی کے رپورٹر جناب رانا افتخار کے ساتھ رات بارہ بجے کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے۔۔میں نے پوچھا کہ عمرہ قرعہ اندازی میں شرکت کے لیے شناختی کارڈ کی کاپی لائے ہو؟؟؟کہنے لگے  نہیں۔۔میں نے کہا کہ آپ کی مرضی آپ مدینہ کی ٹرین مس کر رہے ہیں۔۔وہ کہنے لگے کہ میں ابھی کہیں سے کاپی کراتا ہوں۔۔میں نے کہا کہ اب آدھی رات کو کہاں سے کاپی ہوگی۔؟پھر وہ کہیں سے کاپی کرا لائے اور مدینہ کے مسافر بن گئے۔۔کلب ملازم محمد خان بھی اشکبار تھے اور بتا رہے تھے کہ میری ماں نے کہا کہ آپ جائیں آپ کو عمرہ کا ٹکٹ مل جائے گا۔۔مدینہ کے مسافر قابل رشک ہوتے اور ان کی یہی کیفیات ہوتی ہیں۔۔ 2006میں میرے پہلے عمرے کی” روداد” بھی کچھ ایسی ہی “دلنشین” ہے۔۔ادھر دل میں مدینے کا خیال آیا،ادھر مدینے کا ٹکٹ مل گیا۔۔میں ان دنوں روزنامہ خبریں میں تھا۔پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام “دیال سنگھ مینشن” میں عمرہ کی قرعہ اندازی تھی۔۔اس شب مجھے شدید فلو تھا۔۔میں نے سوچا ریگل چوک سے جوشاندہ لاتا ہوں اور قرعہ اندازی کے عمل میں بھی شریک ہو آتا ہوں۔۔سو پیدل ہی نکلا،کچھ دیر محفل میں بیٹھا۔۔ایک نعت سنی اور شناختی کارڈ باکس میں ڈال کر واپس دفتر آگیا۔۔رات ایک دو بجے ہمارے کولیگ “ستار نیازی” نے فون پر “جذباتی انداز” میں “خوشخبری” دی کہ مبارک ہو آپ کا عمرہ کا ٹکٹ نکل آیا ہے۔۔کچھ ہی دنوں میں خالہ بھی ساتھ تیار ہو گئیں اور ہم نے پندرہ رمضان المبارک کی سحری مدینہ منورہ جا کرکھائی۔۔کعبہ کے سائے اور گنبد خضرا کی چھائوں تلے جو مانگا وہ مل گیا۔

اپنے وقت کے درویش جناب اشفاق احمد  کی “صوفیانہ صحبت “سے “فیض یاب” افتخار افی نامور ادیب ،شاعر، ڈرامہ نویس اور فلم نگار ہیں۔۔وہ بھی “مدینے کے پہلے سفر” کی کچھ ایسی روح پرور داستان سناتے ہیں۔کہتے ہیں:1994 کی بات ہے کہ عمرے کی خواہش خواب بن گئی۔۔ہم اُس وقت صرف ڈھائی ہزار کے ملازم تھے اور عمرے کا خرچہ اکیس ہزار تھا۔۔وقت گزرتا گیا اور ہم شوبز میں آگئے ۔ان دنوں ہمیں چھوٹے چھوٹے رول ملا کرتے تھے وہ بھی کبھی کبھار۔۔ سترہ دن خوشحال اور تیرہ دن بد حال رہتے ۔۔روز تڑپتے کہ اللہ عمرے کی کوئی سبیل پیدا کردے مگر تنگ دستی آڑے رہی۔۔اسی آرزو میں انیس سال بیت گئے۔۔ہم نے بھی دعا ترک نہ کی۔۔جب ناامیدی دامن گیر ہوتی  ہم اپنی  اماں کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرتے تو وہ دلاسہ دیتیں فکر نہ کر افی بیٹا تیرے ارمان ضرور پورے ہونگے۔۔ایک روز اے پلس ٹی وی کے کاشف کبیر صاحب کی کال آئی۔۔ہم جا کر ملے ،کہنے لگے حضرت سُلطان باہو سرکار کی زندگی پر ایک ڈرامہ سیریل لکھنی ہے ۔۔ہم نے فٹ سے حامی بھر لی کیونکہ ہمیں صوفیائے کرام سے دلی لگاؤ تھا ، ہم نے تقریبأ ہند سندھ کے سارے صوفیاء کو پڑھ رکھا تھا۔۔دو ہزار تیرہ جنوری میں ہم نے جبار صاحب سے پینتالیس ہزار فی قسط لکھنے کا معاہدہ کیا اور ڈھائی لاکھ ایڈوانس کا چیک لیکر اے ٹی وی سے نکل آئے۔۔ارادہ یہ کیا کہ روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیٹھ کر ڈرامے کا پہلا سین لکھیں گے ۔۔اس غرض سے عمرے کا ویزا لگوایا اور جب ٹکٹ کی باری آئی تو ہمیں ٹکٹ لاہور سے دبئی ، دبئی سے جدہ کا ملا۔۔افتخار ٹھاکُر کی زبانی معلوم ہوا کہ مدینہ میں ائیر پورٹ بن چکا ہے۔۔دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ پہلے مدینہ جائیں مگر لاہور دبئی اور دبئی مدینہ کا ٹکٹ سولہ ہزار مہنگا تھا۔۔ہمارے پاس دستیاب پیسوں میں مدینہ کا ٹکٹ نہیں آ سکتا تھا۔۔ہم نے دل پر پتھر رکھا اور جہاز پر سوار ہوگئے ۔ایمریٹس ائیر لائنز کی پرواز تھی۔۔دبئی کے ٹرمینل تھری پر دس گھنٹے کا “اسٹے” تھا اور اس کے بعد جدہ کی طرف فلائٹ تھی۔۔ ہمارے دل میں تڑپ تھی کہ کاش پہلے مدینہ جاتے۔۔فلائٹ سے دو گھنٹے پہلے اچانک ایمریٹس کی طرف سے اعلان ہوا کہ موسم کی خرابی کے باعث فلائٹ جدہ نہیں مدینہ جا رہی ہے۔۔ ہم نے اناوسمنٹ سُنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔۔جب کنفرم ہوگیا کہ ہم دلی مراد پانے جا رہے ہیں تو آنسوئوں کا سمندر تھا اور افی میاں تھے ۔۔افی میاں کے ہاتھ میں جدہ کا “بورڈنگ پاس “تھا اور وہ مدینہ جا پہنچا۔۔جب یہ واقعہ یاد آتا ہے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔  جدہ کا وہ “بورڈنگ پاس” آج بھی میں نے سنبھال رکھا ہے۔

صوفی بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب کے “مرید”ممتاز مفتی صاحب اپنے سفرنامہ حج” لبیک”میں ایک خاتون کی ایسی ہی” پرسوز کہانی “لکھتے ہیں:تقسیم ہند کے وقت حمیدہ دس سال کی ایک خوب صورت لڑکی تھی۔۔سکھوں کے ایک جتھے نے ان کے گائوں پر حملہ کر دیا۔۔وہ جاتے ہوئے حمیدہ کو بھی ساتھ لے گئے۔۔وہاں پہنچ کر وہ حمیدہ کور بن گئی۔۔پھر تین سال کے بعد وہ لہنا سنگھ کی بیوی بنا دی گئی۔۔اس کے گھر دو بچے پیدا ہوئے۔۔اس کے باوجود وہ گھر حمیدہ کا گھر بنا نہ وہ ان بچوں کی ماں بن سکی۔وہ صبح شام، دن رات دعا کرتی کہ یا اللہ مجھے اس” کال کوٹھری” سے نکال۔۔پھر حالات نے ایسا رخ پلٹا کہ ہندوستانی پولیس حمیدہ کو پاکستان چھوڑ گئی۔بڑی مشکل سے اسے ماں باپ کا گھر مل گیا لیکن والدین نے اسے حقارت سے ٹھکرادیا۔۔وہ برادری کی وجہ سے مجبور تھے  کیونکہ حمیدہ سکھ کی بیاہتا اور دو سکھ بچوں کی ماں تھی۔حمیدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گڑگڑا کر عرض کی یا رسول اللہ مجھ پر میرا وطن تنگ ہو گیا ہے۔۔میرے اپنے ماں باپ کے گھر کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ ۔ میرے لیے اب دنیا میں کوئی پناہ گاہ نہیں رہی۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے قدموں میں بلا لو۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں امان پانے کی خواہش حمیدہ کے دل میں جنون بن گئی۔۔لیکن مدینہ منورہ پہنچنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔۔دو ایک سال میں  “جیسے تیسے” رقم اکٹھی ہوئی تو حمیدہ عازم مدینہ ہوگئی،جب وہ مدینہ کے قریب پہنچی تو اس کے دل پر وحشت سوار ہو گئی۔۔اسے خیال آیا کہ وہ تو “ناجائز کمائی” سے وہاں پہنچی ہے۔۔وہ کس منہ سے مدینہ پاک داخل ہو سکتی ہے۔۔ناپاک جسم لیکر کس طرح مسجد نبوی میں حاضری دے سکتی ہے۔۔روتے روتے حمیدہ کی گھگی بندھ گئی۔۔اسی حالت میں اس کی آنکھ لگ گئی۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:اٹھو حمیدہ ملال نہ کرو۔۔دیکھو تمہارا جسم کتنا پاکیزہ ہے۔۔حمیدہ نے دیکھا کہ اس کا جسم منور تھا۔۔وہ جاگی تو اس نے اپنے آپ کو مسجد نبوی میں پایا۔پھر حمیدہ نے زندگی مدینہ میں ہی گذار دی۔

جناب یاسین مغل کی “ایک بات” سن کر مجھے سوشل میڈیا پر جناب قدرت اللہ شہاب سے منسوب ایک مکالمہ آگیا۔۔مغل صاحب فرط جذبات میں تھے۔۔ کہنے لگے کہ آپ بھی ساتھ چلیں کہ آپ پہلے بھی حاضری دے چکے۔۔ہماری “رہنمائی” ہو جائے گی۔۔میں نے کہا آپ مقبول آدمی ہیں دعا کیجیے۔۔دل تو مچلتا ہے اڑ کر دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ جائوں اور در اقدس پر درود و سلام کہوں مگر ہر کارکن صحافی کے مسائل ایک ایسے ہوتے ہیں۔۔وہ اپنے وسائل نہیں بلاوے پر ہی مدینہ حاضری دے سکتا ہے۔۔قدرت اللہ کا تڑپا دینے والا جملہ سنیے اور جھوم اٹھیے۔۔کہتے ہیں کہ ایک دوست کو فکر لاحق ہوئی کہ مدینہ منورہ میں ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟؟ پوچھنے لگے مدینہ میں ہے کوئی جان پہچان والا ؟؟اس سوال پر میرے مضطرب‏ دل کے سارے تار ہل اٹھے اوربدن میں ارتعاش بپا ہو گیا۔میں نے کوئی جواب دیے بغیر اپنے آپ سے پوچھا کہ مدینے میں ہے کوئی جان پہچان والا ؟؟؟ اس سوال کے ساتھ ہی میری آنکھیں بھر آئیں۔۔!میں نے دوست کو بتانا چاہا کہ ہاں ہے بہت ہی دیرینہ اور ‏بڑا گہرا تعلق ہے ان سے۔۔وہی مجھے بار بار بلاتے، میری میزبانی کرتے، میرے ساتھ ساتھ رہتے،میرے غم بانٹتے اور آنسو پونچھتے ہیں۔۔میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کچھ نہ کہہ سکا۔۔بڑی مشکل سے میرے منہ سے ایک جملہ نکلا  کہ مدینہ میں بھی بھلا کوئی اجنبی ہوتا ہے؟‏میرے دوست کے رخساروں سے بھی آنسو ڈھلکنے لگے۔۔!!مدینہ منورہ میں مقیم جید عالم دین ڈاکٹر احمد علی سراج نے کسی ایک نشست میں “اس مکالمے”کو اپنے والد گرامی سے منسوب ایک غیر معمولی واقعہ بیان کرکے تقویت بخشی۔۔ڈاکٹر احمد علی سراج نے بتایا کہ والد گرامی مولانا سراج الدین ساٹھ کی دہائی میں حج پر گئے۔۔پاکستان سے قافلہ چلا تو انہوں نے “حاجی کوڑو” نامی ہم سفر کو “خزانہ دار “بنادیا اور نصیحت کی کہ پیسے خرچ کرنے ہیں لیکن گتھلی کھول کر نہیں دیکھنی۔حاجی کوڑو نے مکہ مکرمہ تک تو بات یاد رکھی لیکن مدینہ منورہ جا کر نصیحت بھول گئے۔۔ایک دن سرائے میں بیٹھے گتھلی کھول دیکھی تو گھبرا گئے کہ زاد راہ تو ختم ہونے کو ہے۔۔مولانا سراج الدین کے پاس آئے اور حال دل کہا اور پوچھا اب کیا ہوگا؟؟مولانا نے جواب دیا کہ اب گھبرایے مت جن کے مہمان ہیں وہی جانیں۔۔اگلی شب کسی عرب نے سرائے پر دستک دی اور پوچھا مولانا سراج کہاں ہیں؟وہ مولانا صاحب کو ایک طرف لے گئے اور ایک تھیلی پیش کی۔۔مولانا سراج نے ٹال مٹول کی تو عرب نے کہا کہ حضرت لے لیجیے کہ مجھے وہاں سے حکم ملا جہاں آپ نے رجوع کیا تھا۔۔وہی  بات جو قدرت اللہ شہاب نے کسی دوست کو کہی تھی کہ بھلا مدینہ میں بھی کوئی اجنبی ہوتا ہے۔(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں