تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،باباجی فرماتے ہیں کہ اگر امید سے زیادہ خوبصورت بیوی مل جائے تو مرد کے اندر برتن دھونے کی خواہش خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔۔یہ تو ہم نے ماحول بنانے کے لئے آپ کو ایسی بات سنائی ہے کہ آپ کا دل ہماری تحریر سے لگا رہے، درمیان میں چھوڑ کر واش روم نہ چلے جائیں۔۔ اکثر گھروں میں آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا(ہم تو چشم دید گواہ ہیں) کہ ان کے گھر بیٹا پیدا ہوتو بہت خوشیاںمناتے ہیں اور بیٹی کے جنم لینے پر ان کے منہ ایسے بن جاتے ہیں جیسے پٹواریوں کے منہ ٹی وی اسکرین پر عمران خان کو دیکھ کر یا جیسے ۔۔یوتھیوں کے منہ ٹی وی پر شہبازشریف کو دیکھ کر بن جاتے ہیں۔۔ باباجی کہتے ہیں کہ بیٹا نعمت ہے تو بیٹی اللہ کی رحمت ہے۔۔ جو بھی پیدا ہوئے، اس کی اچھی تعلیم و تربیت اور اس کی اچھے سے پرورش والدین کا فریضہ ہے۔۔
شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ جب وہ کمرے میں پہنچ جائیں گے تو پھر دروازہ نہیں کھولیں گے چاہے کوئی بھی آ جائے۔۔ابھی دروازہ بند ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دلہے کے والدین کمرے کے باہر پہنچے تاکہ اپنے بیٹے اور بہو کو نیک تمناؤں اور راحت بھری زندگی کی دعا دے سکیں، دستک ہوئی بتایا گیا کہ دلہے کے والدین باہر موجود ہیں۔۔دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ،باوجود اس کے کہ دلہا دروازہ کھولنا چاہتا تھا اس نے اپنے فیصلے کو مدنظر رکھا اور دروازہ نہیں کھولا۔۔والدین ناکام واپس لوٹ گئے۔۔ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دلہن کے والدین بھی دلہے کے گھر جا پہنچے تاکہ اپنی بیٹی اور داماد کو اپنی نیک خواہشات پہنچا سکیں اور انہیں سکھی زندگی کی دعا دے سکیں۔۔ایک بار پھر کمرے کے دروازے پر دستک دی گئی اور بتایا گیا کہ دلہن کے والدین کمرے کے باہر موجود ہیں،دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اپنا فیصلہ ذہن میں تازہ کیا۔۔باوجود اس کے کہ فیصلہ ہو چکا تھا دلہن کی آنسوؤں بھری سرگوشی سنائی دی۔۔ نہیں میں اپنے والدین کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی۔۔ اور فورا دروازہ کھول دیا۔۔شوہر نے یہ سب دیکھا مگر دلہن کو کچھ نا کہا خاموش رہا۔۔اس بات کو برسوں بیت گئے ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے اور پانچویں بار ایک بیٹی پیدا ہوئی۔۔شوہر نے ننھی گڑیا کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں ایک بہت بڑی پارٹی کا انتظام کیا اور اس پارٹی میں ہر اس شخص کو بلایا جسے وہ جانتا تھا اور خوب خوشیاں منائی گئیں۔۔اس رات بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ ۔۔آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنی بڑی پارٹی کا اہتمام کیا جبکہ اس سے پہلے چاروں بچوں کی پیدائش پر ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔۔شوہر مسکرایا اور بولا۔۔یہ وہ ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی۔۔
ایک ساس ڈاکٹر کے پاس گئی۔ اس نے ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ۔۔ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دوا دیںکہ اس مرتبہ،میری بہو کا بیٹا ہی ہو،دو بیٹیاں پہلے ہیں، اب تو بیٹا ہی ہونا چاہیے۔ڈاکٹر نے جواب دیا۔۔میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔۔ساس نے کہا۔۔ پھر کسی اور ڈاکٹر کا بتا دیں؟ ۔۔ڈاکٹر نے کہا کہ۔۔ آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی، میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔ اس موقع پر لڑکی کا سسر بولا کہ۔۔ وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو۔۔ڈاکٹر نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ جعلی ڈاکٹر ہوگا، اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔۔اب لڑکی کے شوہر نے کہا کہ اس کا مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟ ڈاکٹر نے شوہر کو گھورا اور پوچھ بیٹھا۔۔ یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟لڑکی کے شوہر نے گڑبڑا کر جواب دیا۔۔آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟ ڈاکٹر یہ جواب سن کر مسکرایا اور بولا۔۔تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں گی، بیٹا کیوں ضروری ہے؟ ویسے آپ بھی عام انسان ہیں۔ آپ کی نسل میں ایسی کیا بات ہے جو بیٹے کے ذریعے ہی لازمی چلنی چاہیے؟ ۔۔سسر نے کہا کہ میں سمجھا نہیں؟۔۔ڈاکٹر نے کہا کہ۔۔ ساہیوال کی گائیوں کی ایک مخصوص نسل ہے جو دودھ زیادہ دیتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک گائے بچ جاتی ہے تو پریشان ہونا چاہیے کہ اس سے آگے نسل نہ چلی تو زیادہ دودھ دینے والی گائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طوطوں کی ایک مخصوص قسم باتیں کرتی ہے،بالفرض اس نسل کی ایک طوطی بچ جاتی ہے تو فکر ہونی چاہیے کہ اگر یہ بھی مر گئی تو اس نسل کا خاتمہ ہو جائے گا۔آپ لوگ عام انسان ہیں باقی چھ سات ارب کی طرح آخر آپ لوگوں میں ایسی کون سی خاص بات ہے؟یہ بات سن کر سسر نے کہا کہ ڈاکٹرصاحب کوئی نام لینے والا بھی تو ہونا چاہیے۔۔ڈاکٹر نے ان سے سوال کیا کہ آپ کے پَردادے کا کیا نام ہے؟ اس موقع پر سسر بس اتناکہہ سکا کہ وہ، میں، ہممم، ہوں وہ۔۔ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے پتہ ہے آپ کو نام نہیں آتا، آپ کے پردادا کو بھی یہ ٹینشن ہو گی کہ میرا نام کون لے گا اور آج اُس کی اولاد کو اُس کا نام بھی پتہ نہیں۔۔ویسے آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نام کوئی لے یا نہ لے آپ کو کیا فرق پڑے گا؟ آپ کا نام لینے سے قبر میں پڑی آپ کی ہڈیوں کو کون سا سرور آئے گا۔۔علامہ اقبال کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا، آج بھی نصاب میں ان کا ذکر پڑھایا جاتا ہے۔گنگا رام کو مرے ہوئے کافی سال ہو گئے لیکن لوگ آج بھی گنگا رام ہسپتال کی وجہ سے گنگا رام کو نہیں بھولے۔ ایدھی صاحب مر گئے لیکن نام ابھی بھی زندہ ہے اور رہے گا۔غوروفکر کیجئے کائنات کی سب سے محبوب ترین ہستی رسول اللہؐ کی حیاتِ طیبہ پر اور اُن کی آلِ مبارک پر جن کو اللہ تبارک و تعالی نے بیٹے عطا فرماکر واپس لے لیے اور ایک بیٹی سے رہتی دنیا تک رسول اللہؐ کی نسل کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔لہذا بیٹی اور بیٹوں میں ہرگز فرق نہ کریں، بیٹا اگر نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔عید سے پہلے روٹھے ہوئے احباب کو منالیں، ثواب بھی ملے گا گوشت بھی۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔