تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،کسی نے باباجی سے سوال کیاکہ۔۔گاؤں اور شہر میں کیا فرق ہے؟؟ باباجی نے سوال کرنے والے کو بغور دیکھا، پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔۔گاؤں میں گائیں پالی جاتی ہیں، کتے آوارہ گھومتے ہیں۔۔شہر میں کتے پالے جاتے ہیں اور گائیں آوارہ گھومتی ہیں۔۔گاؤں کا جاہل آدمی گائے اور بکریوں کو چرانے ، گھمانے لے جاتا ہے، شہر کا پڑھا لکھا آدمی کتے کو گھماتا ہے۔۔گاؤں میں اگر کسی کے کپڑے پھٹے ہوں تو لوگ اسے غریب کہتے ہیں، شہر میں اگر کسی کی پینٹ میں دس سوراخ ہوں تو لوگ اسے فیشن کہتے ہیں۔۔ گاؤں کے یتیم خانے میں غریبوں کے بچے ملتے ہیں اور شہر کے اولڈ ایج ہومز میں امیروں کے ماں باپ ملتے ہیں۔۔ چلیں آج آپ کو بیرون ملک کی سیرکراتے ہیں۔۔اٹلی میں دماغ کی گھنٹوں طویل سرجری کے دوران ایک مریض سیکسوفون (موسیقی کا ایک آلہ) پر من پسند دھنیں بجاتا رہا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈاکٹر کی جانب سے 35سالہ موسیقار کے دماغ میں رسولی تشخیص کی گئی تھی جس کی سرجری کے لیے وہ اسپتال آیا۔ 9گھنٹے پر مشتمل دماغی سرجری کے دوران مریض نے 1970کی دہائی کا مشہور گانا ‘لو اسٹوری’ کی دھن بجائی اور ساتھ ہی وہ اٹلی کے قومی ترانے کی دھن بھی بجاتا رہا۔ اسپتال کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق نیورو سرجن کی جانب سے بتایا گیا کہ سرجری کے دوران مریض کو بے ہوش نہیں کیا گیا تاکہ سرجن کو یقین رہے کہ مریض کے اعصاب فعال ہیں۔ ڈاکٹرز نے مزید بتایا کہ مریض کو سرجری کے دوران جگا کر رکھنے کی ایک بڑی وجہ درست نیورونل نیٹ ورک کا پتا لگانا ہے جو دماغ کے مختلف فنکشنز کو کنٹرول کیے ہوئے ہیں جس میں بولنے، دیکھنے، حرکت کرنے اور یاد رکھنے سمیت دیگر افعال شامل ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈاکڑز کا کہنا تھا کہ موسیقار کی دماغی سرجری کامیاب رہی اب وہ ایک عام صحت مند فرد جیسی زندگی گزار سکتا ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور ٹیکسز کی بھرمار کے دوران کسی نے یہ بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ڈکار لینے پر ہی ٹیکس لگا دیا جائے گا اور ایسا حقیقت میں کر دیا گیا ہے۔نیوزی لینڈ کی جانب سے مویشیوں کے ڈکارنے پر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیوی حکومت نے منگل 11 اکتوبر کو مویشیوں کے ڈکارنے اور فضلہ خارج کرنے سے پیدا ہونے والی ماحول دشمن گیسوں پر ٹیکس لگانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ حکومت کے مطابق یہ اقدام ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جاری کوششوں میں سے ایک ہے۔کیوی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا دنیا میں پہلا ٹیکس ہوگا اور کسان ماحول دوست اشیا پر زیادہ منافع حاصل کر کے اس ٹیکس سے پیدا ہونے والا خرچ برداشت کر سکتے ہیں۔ملک میں کسانوں نے اس منصوبے کی مذمت کی ہے۔ کسانوں کی انڈسٹری کے ایک بڑے لابی گروپ ’فیڈیریٹڈ فارمرز‘ کے مطابق اس منصوبے کی وجہ سے ملک کے دیہات کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔دوسری جانب نیوزی لینڈ میں اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے دنیا بھر میں مہلک گیسوں کے اخراج میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ کیونکہ نیوزی لینڈ کے فارم دوسرے ممالک میں منتقل ہوجائیں گے، جہاں فارمز میں ماحول دوست طریقے استعمال نہیں کیے جاتے۔ نیوزی لینڈ کی فارم انڈسٹری ملک کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے۔ دودھ سے بنائی جانے والی اشیا ملک کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نیوزی لینڈ کی آبادی پچاس لاکھ افراد پر مشتمل ہے لیکن ملک میں ایک کروڑ سیزیادہ گائے بھینسیں اور ڈھائی کروڑ سے زائد بھیڑ بکریاں موجود ہیں۔ ملک کی یہ بڑی انڈسٹری گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ مویشیوں کے ڈکار میں موجود میتھین گیس اور ان کے پیشاب سے خارج ہونے والی ناٹریس آکسائڈ ماحولیاتی تبدیلی میں ایک بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔نیوزی لینڈ کی حکومت نے 2050 تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ 2050 تک میتھین گیس کے اخراج کو 47 فیصد تک کم کیا جائے گا۔ حکومت کے حالیہ منصوبے کے تحت کسان 2025 سے میتھین گیس کے اخراج پر ٹیکس ادا کریں گے، اس ٹیکس کی شرح کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ کینیڈا ایک مہنگا ملک ہے، لیکن اس کی شہری خدمات اعلیٰ ترین معیار کی ہیں۔ کرسمس کے دوران کراچی سے ایک فیملی چھٹیاں منانے کینیڈا گئی ہوئی تھی۔ اس میں ایک جوڑا، ان کے 2 بچے اور اس شخص کا باپ شامل تھا۔ ٹورنٹو میں 3 دن کے بعد، انہوں نے مونٹریال جانے کے لیے ایک کار کرائے پر لی۔ ہائی وے 401 دنیا کے سب سے چوڑے حصے میں 18 لین گزرنے کے ساتھ فری وے بالکل شاندار ہے۔ ایک 80+ کینیڈین خاتون ان کے پیچھے ایک کار میں محفوظ فاصلہ رکھتے ہوئے تھی۔ بچے پچھلی سیٹ پر سے بار بار پیچھے دیکھ رہے تھے اور اکثر کینیڈین خاتون کو ہاتھ ہلاتے تھے جو مسکرا کر جاب میں ہاتھ ہلاتی جاتی تھی۔ اچانک کینیڈین خاتون نے دیکھا کہ ایک بوڑھے کا سر پچھلی سیٹ کی کھڑکی سے باہر نکلا اور خون کی قے ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی کار سائیڈ پر روکی اور فوری طور پر مدد کے لیے 911 پر کال کی۔ بہت جلد، ایک ایمبولینس ہیلی کاپٹر نمودار ہوا۔ یہ ایک کلومیٹر آگے اترا۔ خاندان کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا، اور کچھ ہی دیر میں تربیت یافتہ طبی عملہ بوڑھے کو ہیلی کاپٹر میں لے گیا جو تقریباً ایک آئی سی یو تھا۔ آکسیجن کی سپلائی شروع ہو گئی۔ دل کی شرح اور دیگر پیرامیٹرز کی نگرانی کی گئی۔ ایک ماہر ایم ڈی ہدایات فراہم کرنے کے لیے ٹورنٹو سے ویڈیو کال پر تھا۔ آدھے گھنٹے میں بوڑھے کو محفوظ اور دوبارہ سفر کے لیے فٹ قرار دے دیا گیا۔ کینیڈین خاتون کی فوری مدد اور بروقت کارروائی پر خراج تحسین پیش کیاگیا۔اور ان خدمات کے لیے، اس آدمی سے ساڑھے تین ہزار کینیڈین ڈالر وصول کیے گئے۔ ایک متوسط پاکستانی خاندان کیلئے یہ بہت بھاری رقم تھی۔۔اس غیر معمولی مالی اخراجات کے ساتھ، کراچی والا صدمے میں تھا اور اس نے اپنے والد کو بڑے افسردگی سے کہا؟ابا جی، پان کھا کر کے باہر تھوکنے کی کیا ضرورت تھی۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ اردو کی لیجنڈ مصنفہ بانوقدسیہ کہتی ہیں ۔۔پرانے دنوں کو یاد نہیں کرتے ، نئے دنوں میں گْھن لگ جاتا ہے۔ ۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔