تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، مکان بنانے والے مستری اور مزدور ان پڑھ ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس کار یا موٹرسائیکل ہے تو جب اسے ٹھیک کرانے کسی میکنک کے پاس جاتے ہیں وہ بھی ان پڑھ۔۔ گھر میں بجلی کی وائرنگ کرانی ہو یا کوئی سوئچ لگانا ہو، وہ بھی ان پڑھ۔۔ گھرمیں رنگ و روغن کرانا ہے تو وہ بھی ان پڑھ۔۔ گھر کا ٹی وی ، واشنگ مشین، جوسر بلینڈر، استری، موبائل ٹھیک کرانا ہو تو وہ بھی زیادہ تر ان پڑھ ہی ملتے ہیں۔ بال کٹوانے جائیں تو نائی بھی زیادہ تر ان پڑھ ہی ہوتے ہیں۔۔ شادی بیاہ پر کھانا پکوانا ہو تو باورچی بھی ان پڑھ۔۔گھر میں پلمبر کو بلا کر نلکا، واش بیسن یا کوئی اور کام کرانا ہوتو وہ بھی اکثر ان پڑھ ہی نکلتا ہے۔ یا اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے اسکول کا منہ نہیں دیکھا یا پھر اسکول گئے تو تھے لیکن دو،چار جماعتیں ہی پڑھ سکیںاور اسکول جانا چھوڑ دیا۔۔ان تمام لوگوں سے جب آپ ملیں گے ،آپ سے بہت اخلاق سے پیش آئیں گے اور انکساری سے بات چیت کریں گے۔۔ لیکن اس سے الٹ اگر آپ کسی بینک، دفتر، تھانہ، عدالت، کچہری، پوسٹ آفس وغیرہ جائیں جہاں اکثریت ڈگری ہولڈرز کی ہوتی ہے، آپ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ لوگ اپنا کام ٹھیک طرح سے کر نہیں سکتے البتہ عوام کو ذلیل کرنے اور دھتکارنے کا عمل اچھی طرح انجام دے لیتے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ اس ملک اور نظام کا بیڑہ غرق کسی ان پڑھ نے نہیں بلکہ تعلیم یافتہ لوگوں نے کیا۔۔ بچپن سے سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں ترقی کے لیے تعلیم بڑی ضروری ہے آج گھر گھر محلے محلے اسکول و کالج کھلے ہیں مگر آج معاشرے و نظام کی حالت چالیس سال پہلے سے بدتر سے بدتر ہے کیوں۔۔؟فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے۔۔ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل کی بات ہے، لکھنؤ میں جب پہلی بار میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ اپنے وقت میں لکھنؤ کی مشہور طوائف اور محفل کا فخر ’’دلربا جان‘‘ چوک سے امیدوار بنیں۔اس کے خلاف کوئی الیکشن لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ان دنوں ایک مشہور حکیم صاحب تھے۔۔ حکیم شمس الدین۔۔اسی چوک میں حکیم صاحب کا مطب بھی تھا۔۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور حکیم تھے۔ اور بڑے باعزت و نیک نام تھے۔ دوستوں نے انہیں زبردستی الیکشن میں’’دلربا جان‘‘ کے مقابلے میں کھڑا کیا۔دلربا جان کی تشہیر نے زور پکڑا۔ روزانہ سر شام چوک میں محفلیں سجنے لگیں۔ جدن بائی جیسی اپنے زمانے کی مشہور رقاصاؤں کے پروگرام ہونے لگے اور محفلوں میں بے تحاشہ بھیڑ جمع ہونے لگی۔ اس وقت حکیم صاحب کے ساتھ چند دوست ہی ہوا کرتے تھے جنہوں نے انہیں الیکشن میں جھونک دیا تھا۔اب حکیم صاحب کو غصہ آیا کہ تم لوگوں نے مجھے مار دیا، میری شکست یقینی ہے۔ دوستوں نے ہمت نہیں ہاری۔۔ اور نعرہ دیا۔۔۔ہے ہدایت چوک کے ہرووٹر شوقین کو، دل دیجئے دلربا کو ووٹ شمس الدین کو۔۔ یہ نعرہ تیزی سے مقبول ہونے لگا تو دلربا جان نے جوابی اٹیک کردیا۔۔ہے ہدایت چوک کے ہرووٹر شوقین کو، دلربا کو ووٹ دیجئے نبض شمس الدین کو۔۔بدقسمتی یہ رہی کہ دلربا جان کا نعرہ عوام میں مقبولیت اختیار نہ کرسکا۔ الیکشن کے نتائج آئے تو حکیم صاحب کا نعرہ کامیاب ہوا تھا اور وہ الیکشن جیت گئے۔۔ لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق،دلربا جان نے حکیم صاحب کو گھر پر جاکر مبارکباد دیتے ہوئے کہا۔۔ میں الیکشن ہار گئی، آپ جیت گئے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ مگر آپ کی جیت سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ۔۔ لکھنؤ میں مرد کم اور مریض زیادہ ہیں۔!اگر اس واقعہ کو سامنے رکھیں تو آج بھی وہی حال ہے، الیکشن وہی جیت پاتا ہے جس کا نعرہ سندقبولیت اختیار کرتا ہے۔ عوام میں جس لیڈر کا بیانیہ پاپولر ہوجائے اسے الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔ بات جب سیاست دانوں کی نکلی ہے تو کہاجاتا ہے کہ سیاست دان بولتے بہت ہیں۔۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا کی تقریباً آدھی آبادی کو اس وقت منہ کی مختلف بیماریوں کا سامنا ہے جن میں سڑتے ہوئے دانت، مسوڑھوں میں سوجن اور منہ کا کینسر شامل ہیں۔ ایک نئی رپورٹ میں منہ کی صحت کی خدمات تک رسائی میں واضح عدم مساوات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے انتہائی کمزور اور پسماندہ آبادی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کے مطابق ۔۔عالمی صحت کے نظام میں اس بات کو جانتے ہوئے کہ منہ کی بہت سی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے اور سستے اقدامات سے ان کا علاج کیا جا سکتا ہے،جس کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق عالمی آبادی کا 45 فیصد، یا تقریباً ساڑھے تین ارب لوگ دانتوں کی خرابی، مسوڑھوں کی بیماری اور منہ کی دیگر بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ یہ رپورٹ 194 ممالک کی صورتحال کی پہلی جامع تصویر پیش کرتی ہے، اس میں پتا چلا ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں منہ کی بیماریوں سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ایک ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ باباجی نے اپناکچھ عرصہ پرانا قصہ سناتے ہوئے کہا۔۔مسجد میں چند روز سے نمازِ فجر کی جماعت کے بعد ایک شخص باقاعدگی سے مجھ سے مصافحہ کرنے لگا تھا۔ اگر میں دعا کرنے میں مشغول ہوتا تو میرا انتظار کرتا اور مصافحہ کر کے گھر کو لوٹتا۔وہ اب مسجد میں بھی جلدی آنے لگا تھا۔ پہلے پہلے اذان کے فوراً بعد، پھر اذان سے پہلے، پھر اس سے بھی پہلے۔ دن بہ دن اس کے مسجد میں داخلے کا وقت پیچھے کی طرف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ایک دن مصافحہ کرتے اس نے مجھ سے کہا۔۔ میں ہمیشہ سے آپ پر رشک کرتا آیا ہوں، جبکہ میں روز ہی پوری کوشش کرتا رہا ہوں کہ اب کی بار آپ سے پہلے مسجد میں داخل ہوں گا مگر ہر بار آپ کو ہی پہلے یہاں موجود پایا۔ آپ کس طرح یوں پابندی کے ساتھ سب سے قبل مسجد پہنچ جاتے ہیں؟میں نے نہایت صبر اور ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔۔ میری دو بیویاں ہیں، وہ دونوں مل کر میری خدمت کرتی ہیں اور نماز کی اس پابندی میں میری مدد کرتی ہیں۔وہ شخص میرے جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے بھی دوسرا نکاح کر لیا۔۔۔اب ۔۔’’ الحمد للہ ‘‘ وہ نمازِ فجر میں سب سے پہلے مسجد میں موجود ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ میرے ساتھ ہی مسجد میں سوتا ہے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگرآپ دوسروں سے الگ نظر آنا چاہتے ہیں تو ابھی سے ۔۔سوئیٹر یا جیکٹ پہن لیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔