تحریر: محمد طاہر(ایڈیٹر روزنامہ جرات)
واہ آنٹی! کوئی شکار کرنا تو آپ سے سیکھے۔۔یہ بے ہودہ جملہ ایک نوجوان لڑکی ایک آنٹی کو کہتی ہے جو اُسے اپنے بوائے فرینڈ کو پھنسانے کا گُر سکھا رہی ہوتی ہے۔ ٹیلی نار کے اس اشتہار میں ایک بے شرم خاندان کا انتہائی گھٹیا تصور اپنی ارذل ترین سطح سے چیخ چنگھاڑ رہا ہے۔ ایک آنٹی اپنے بے غیرت شوہر کے ساتھ بیٹھی ہے۔ جو پست سطح کے گُر سے آنٹی کا ”پھنسایا“ہوا ہے۔ ایک لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کی نظراندازی پر غصے کی شکار ہے اور ”آنٹی“ اُسے وہ نسخہ بتا رہی ہے جو ٹیلی نار کے مواصلاتی ابلاغ کی تشہیر کا ذریعہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ کمپنیاں سمجھتی ہیں کہ ان کے صارفین اس نوع کی بے ہودگیوں سے راغب ہوتے ہیں۔ اور پورے ملک میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موبائل فونز سے بس یہی گھٹیا سرگرمیاں دن رات جاری رکھتے ہیں۔ اشتہار کا مرکزی خیال اس نتیجے سے جڑا ہوا ہے۔ ٹیلی نار کمپنی کو شاید معلوم نہیں کہ یہ عمران خان کی ریاست مدینہ ہے یا پھر عمران خان کو یہ معلوم نہیں کہ ریاست مدینہ میں بے حیائی اور بے شرمی پھیلانے والوں کی شرعی سزائیں کیا ہیں؟ یا پھر دونوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں سب کچھ چلتا ہے۔ ٹیلی نار کے اشتہار کی بے حیائی بھی اور ریاست مدینہ کے مقدس ترین مشن کی سیاسی میناکاری بھی۔ چنانچہ جس کا جو بس چلتا ہے کر گزرتا ہے، ٹیلی نار اشتہار بناتاہے، ٹی وی چینلز خوب خوب دکھاتے ہیں اور وزیراعظم ریاست مدینہ بھی قائم کرتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس پورے سماج کو سفلہ خواہشات کے ایک بے سمت، بے منزل ہجوم میں بدل دیا گیا ہے۔ جہاں سادہ لوح نوجوانوں کو مصنوعی ماحول کی چکاچوندی کا شکار بنا کر اُنہیں شوق وہوس کے بحرِ بیکراں میں موج موج غرق کیا جارہاہے۔ اس خدا پرست معاشرے کی پاک دامن بیٹیوں، ماؤں، بہنوں اور بیویوں کو کہاں دھکیلا جارہا ہے؟وادیئ وفا کی ان مکینوں کے لیے اب اشتہارات میں بھی گناہ کی ترغیبات ہیں، اُنہیں بے شرمی تعلیم کی جارہی ہے اوربے حیائی کے راستے دکھائے جارہے ہیں۔ کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں؟ وزیراعظم صاحب حرکت کریں! پیمرا کے ذریعے انہیں لگام دیں۔(محمد طاہر، ایڈیٹر روزنامہ جرات)۔